کتاب: دفاع صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ اجمعین - صفحہ 97
’’بیشک ہمارا رب ایک ہے اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہیں اور ہماری دعوت ایک اسلام کی دعوت ہے۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق میں نہ وہ ہم سے زیادہ ہیں اور نہ ہی ہم ان سے زیادہ ہیں ۔ہمارا معاملہ ایک ہی معاملہ ہے۔ بس اتنی بات ضرور ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کے مسئلہ میں ہمارے مابین اختلا ف ہوگیا تھا اورہم اس سے بری ہیں ۔‘‘ [1]
اور آپ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خون سے بری کیونکر نہ ہوسکتے تھے ؟ مسعودی جیسا شیعہ مؤرخ لکھتا ہے کہ:
’’ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ اطلاع پہنچی کہ بلوائی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کرنا چاہتے ہیں تو اپنے دونوں بیٹوں حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو غلاموں کے ساتھ مسلح کرکے آپ کے گھر کی طرف روانہ کیا تاکہ آپ کے در پر کھڑے ہوکر آپ کی نصرت ومدد کر سکیں اور انہیں یہ حکم دیا کہ کسی کو بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تک نہ پہنچنے دیں مگر انہیں گھر تک پہنچنے سے پہلے ہی روک دیا گیا۔ وہاں پر لوگوں کے ساتھ مڈ بھیڑ ہوئی جس میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا غلام قنبر زخمی بھی ہوئے۔اور جب آپ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر پہنچی تو آپ رنج و الم میں مبتلا اپنے گھر میں داخل ہوئے اور اپنے بیٹوں سے سوال کرنے لگے: امیر المؤمنین کیسے قتل ہوگئے جب کہ تم دونوں دروازے پر تھے؟ اور پھر آپ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو ایک تھپڑ رسید کیا جب کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے سینہ میں مکا مارا۔‘‘ [2]
بلکہ[اس محاصرہ کے دوران] آپ کئی بار خود وہاں پر تشریف لائے اورلوگوں کو وہاں سے بھگایا۔ اپنی زبان اور ہاتھ سے کافی عرصہ دفاع کرنے کے بعد آپ بالکل علیحدہ عزلت نشین ہوگئے تھے۔ کیونکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا:
’’ میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ! واپس چلے جاؤ اور اسلحہ رکھ دو اور اپنے گھروں میں ہی رہو۔‘‘[3]
اور آپ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ :
’’ اللہ کی قسم ! میں نے آپ کا اتنا دفاع کیا حتی کہ مجھے اندیشہ ہونے لگا کہ کہیں میں گنہگار نہ
[1] نہج البلاغۃ ۱۱۴۔ بحار الأنوار ۳۳؍۳۰۷۔ المعجم الموضوعي لنہج البلاغۃ ۴۰۹۔ شرح نہج البلاغۃ لابن ابي الحدید ۱۷؍ ۱۴۱۔ الانتصار للعاملي ۹؍ ۱۴۲۔
[2] مروج الذہب للمسعودي۱؍۴۴۱۔ الغدیر للأمیني ۹؍۲۳۷۔ رجال ترکوا البصمات علی قسمات التاریخ للطیف القزوینی ۱۰۷۔
[3] شرح نہج البلاغۃ لابن أبي الحدید۱۰؍۲۵۶۔