کتاب: دفاع صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ اجمعین - صفحہ 62
تھا کچھ ان میں سے ایماندار ہیں اور اکثر ان میں سے نافرمان ہیں ۔‘‘[1] اس آیت سے استدلال کی وجہ یہ ہے کہ اس میں اس امت کی خیر و بھلائی کو ماضی کی تمام امتوں پر مطلق طور پر ثابت کیا گیاہے۔اور اس خیر وبھلائی میں سب سے پہلے وہ لوگ داخل ہوتے ہیں جو کہ ان آیات کے نزول کے وقت براہ راست مخاطب تھے اوروہ ہیں صحابہ کرام اور اس آیت کا تقاضا ہے کہ یہ حضرات ہر حال میں استقامت پر رہیں اور یہ بات بعید از قیاس ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی امت کے بارے میں فرمائیں کہ وہ بہترین امت ہیں ، لیکن وہ نہ ہی اہل عدل ہوں اور نہ ہی استقامت پر چلتے ہوں ۔ کیا خیر و بہتری یہی ہوتی ہے؟اور ایسے ہی یہ بھی جائز نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے وسط یعنی عادل امت ہونے کی خبر دیں اور وہ ویسے نہ ہوں ۔‘‘ [2] اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللّٰهِ وَالَّذِينَ آوَوْا وَنَصَرُوا أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ (74) وَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْ بَعْدُ وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا مَعَكُمْ فَأُولَئِكَ مِنْكُمْ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللّٰهِ إِنَّ
[1] ذرا سا ان آیات میں غور کرنے کی ضرورت ہے ۔سب سے بہتر شخص کون؟ اور سب سے بہتر امت کا اعزاز کس کو ملا ؟ اللہ تعالی خبر دے ر ہے ہیں کہ:’’ امت محمدیہ تمام امتوں سے بہتر ہے۔‘‘ صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں تم اوروں کے حق میں سب سے بہتر ہو تو لوگوں کی گردنیں پکڑ پکڑ کر اسلام کی طرف جھکاتے ہو۔‘‘ اور مفسرین بھی یہی فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ تم تمام امتوں سے بہتر ہو اور سب سے زیادہ لوگوں کو نفع پہنچانے والے ہو، ابو لہب کی بیٹی حضرت درہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ایک مرتبہ کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا آپ اس وقت منبر پر تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کونسا شخص بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا سب لوگوں سے بہتر وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ قاری قرآن ہو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو، سب سے زیادہ اچھائیوں کا حکم کرنے والا سب سے زیادہ برائیوں سے روکنے والا سب سے زیادہ رشتے ناتے ملانے والا ہو ۔[مسند احمد] حضرت ابن عباس فرماتے ہیں :’’ یہ وہ صحابہ ہیں جنہوں نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی۔‘‘ صحیح بات یہ ہے کہ یہ آیت ساری امت پر مشتمل ہے، بیشک یہ حدیث میں بھی ہے کہ سب سے بہتر میرا زمانہ ہے پھر اس کے بعد اس سے ملا ہوا زمانہ پھر اس کے بعد والا۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :’’ تم نے اگلی امتوں کی تعداد ستر تک پہنچا دی ہے، اللہ کے نزدیک تم ان سب سے بہتر اور زیادہ بزرگ ہو۔‘‘ امام ترمذی نے اس مشہورحدیث کوحسن کہا ہے۔ اس امت کی افضلیت کی ایک بڑی دلیل اس امت کے نبی کی افضلیت ہے، آپ تمام مخلوق کے سردار تمام رسولوں سے زیادہ اکرام و عزت والے ہیں ، آپ کی شرع اتنی کامل اور اتنی پوری ہے کہ ایسی شریعت کسی نبی کو نہیں ملی تو ظاہر بات ہے کہ ان فضائل کو سمیٹنے والی امت بھی سب سے اعلی و افضل ہے، اس شریعت کا تھوڑا سا عمل بھی اور امتوں کے زیادہ عمل سے بہتر و افضل ہے۔یہی وہ اہل ایمان کا گروہ ہے جنہیں اللہ تعالیٰ بہترین لوگ قرار دے رہے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں جنت کی بشارتیں سنارہے ہیں ۔‘‘ (مترجم) [2] الموافقات للشاطبي ۴؍۴۰۔