کتاب: دفاع صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ اجمعین - صفحہ 61
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا﴾[البقرہ: ۱۴۳]
’’اور اسی طرح ہم نے تمہیں معتدل جماعت بنایا تاکہ تم لوگوں پر (اس دین کے)گواہ بن جاؤ اور رسول تم پر اس کی گواہی دیں ۔‘‘
اس آیت سے استدلال کی وجہ یہ ہے کہ یہاں پر اس امت کا وصف’’وسط‘‘ بیان کیا گیا ہے؛ جس کا معنی ہے عادل اور بہترین ۔اورچونکہ اس آیت میں براہ راست مخاطب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں ۔بعض اہل علم نے اس کی تفسیر میں یہ بھی کہا ہے کہ اگرچہ یہ لفظ عام ہیں مگر اس سے مراد خاص صحابہ کرام کی جماعت ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ آیت کریمہ صرف صحابہ کرام کے حق میں وارد ہوئی ہے کسی دوسرے کے حق میں نہیں ۔ پس جو بھی ہو، آیت کریمہ کسی بھی بعد میں آنے والے امتی سے پہلے صحابہ کرام کی عدالت پر بول بول کر گواہی دے رہی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:
﴿ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّٰهِ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ﴾ [آل عمران :۱۱۰]
’’تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے بھیجی گئی ہو اچھے کاموں کا حکم کرتے ہو اور برے کاموں سے روکتے رہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو اور اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو ان کے لیے بہتر
[1]
[1] بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ﴾ اس میں اختلاف و تفرقہ سے بچنے کی یہ تدبیر بتلائی گئی ہے کہ سب مل کر اللہ کی رسی یعنی قرآن یا شریعت اسلام کو مضبوط تھام لیں تو سب آپس میں خود بخود متفق ہوجائیں گے اور باہمی تفرقے ختم ہوجائیں گے۔ رائے کا اختلاف دوسری چیز ہے اور وہ جب تک اپنی حد کے اندر رہے تفرقہ اور جھگڑے کا سبب کبھی نہیں بنتا۔ جھگڑا فساد جبھی ہوتا ہے جب حدود شریعت سے تجاوز کیا جائے۔
ایک دوسری آیت میں ارشاد ہے: ﴿إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَنُ وُدًّا﴾ یعنی جو لوگ ایمان لائیں اور نیک عمل کریں اللہ ان کے آپس میں محبت و مودت پیدا فرما دیتے ہیں ۔‘‘ اس آیت نے واضح کردیا کہ دلوں میں حقیقی محبت و مودت پیدا ہونے کا اصلی طریق ایمان اور عمل صالح کی پابندی ہے اس کے بغیر اگر کہیں کوئی اتفاق و اتحاد مصنوعی طور پر قائم کر بھی لیا جائے تو وہ محض بے بنیاد اور کمزور ہوگا ذرا سی ٹھیس میں ختم ہوجائے گا۔ جس کا مشاہدہ تمام اقوام دنیا کے حالات و تجربات سے ہوتا رہتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام پر حق تعالی کے اس انعام کی وضاحت کی گئی ہے جو مدینہ کے تمام قبائل اور مہاجرین صحابہ کے دلوں میں الفت پیدا کرکے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امداد و نصرت کے لئے انھیں ایک آہنی دیوار کی طرح بنا کر کیا گیا ہے۔