کتاب: دفاع صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ اجمعین - صفحہ 60
﴿ وَإِنْ يُرِيدُوا أَنْ يَخْدَعُوكَ فَإِنَّ حَسْبَكَ اللّٰهُ هُوَ الَّذِي أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ () وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللّٰهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ () يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللّٰهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ﴾ [الأنفال: ۶۲ـ۶۴] ’’اور اگر وہ چاہیں کہ آپ کو دھوکا دیں توآپ کے لیے اللہ کافی ہیں جس نے آپ کو اپنی مدد سے اور مسلمانوں سے قوت بخشی۔اور ان کے دلوں میں الفت ڈال دی۔ جو کچھ زمین میں ہے اگر آپ سارا خرچ کر دیتے تو بھی ان کے دلوں میں الفت نہ ڈال سکتے تھے لیکن اللہ نے ان میں الفت ڈال دی، بیشک اللہ غالب حکمت والے ہیں ۔اے نبی!آپ کو اور مومنوں کو جو آپ کے تابعدار ہیں اللہ ہی کافی ہے۔‘‘[1]
[1] پہلی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ : ’’اگر یہی احتمال واقع ہوجائے کہ صلح کرنے سے ان کی نیت خراب ہو اور وہ آپ کو دھوکا ہی دینا چاہیں تب بھی آپ کوئی پروانہ کریں کیونکہ اللہ تعالی آپ کے لئے کافی ہیں پہلے بھی اللہ تعالے ہی کی امداد و تائید سے آپ کا کام چلا ہے اوراس کے ساتھ ہی مسلمانوں کی جماعت بھی آپ کی امداد کے لئے کھڑی کردی جوکہ اسباب ظاہرہ میں سے ہیں ۔ اسی لئے علما تفسیر نے فرمایا ہے کہ یہ وعدہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایسا ہے جیسا کہ ﴿ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ﴾ کا وعدہ ۔ اس آیت کے نزول کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نگرانی کرنے والے صحابہ کرام کو مطمئن اور سبکدوش فرما دیا تھا ۔ اسی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ وعدہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص تھا۔[معارف القرآن ] اب اگلی آیت میں اس کی مزید کچھ تفصیل اور انعامات کا تذکرہ ہورہا ہے ۔ کہ مسلمانوں کی جماعت سے کسی کی امداد و نصرت ظاہر ہے کہ صرف اسی صورت میں ہوسکتی ہے جب کہ یہ جماعت باہم متفق اور متحد ہو اور بقدر اتفاق و اتحاد ہی اس کی قوت اور وزن ہوتا ہے۔ باہمی اتحاد و یگانگت کے رشتے قوی ہوں تو پوری جماعت قوی ہوتی ہے اور اگر یہ رشتے ڈھیلے ہیں تو پوری جماعت ڈھیلی اور کمزور ہے۔ اس آیت میں حق تعالی نے اپنے اس خاص انعام کا ذکر فرمایا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید و نصرت کے لئے عام مسلمانوں پر ہوا کہ ان کے دلوں میں مکمل وحدت و الفت پیدا کردی گئی۔ حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت مدینہ سے پہلے ان کے دو قبلیوں ۔ اوس و خزرج کے آپس میں شدید جنگیں لڑی جاچکی تھیں اور جھگڑے چلتے رہتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے اللہ تعالے نے ان جانی دشمنوں کو باہم شیر و شکر اوربھائی بھائی بنا دیا۔ مدینہ میں قائم ہونے والی نئی ریاست کے قیام و بقا اور دشمنوں پر غالب آنے کا حقیقی اور معنوی سبب تو اللہ تعالی کی نصرت و امداد تھی اور ظاہری سبب مسلمانوں کی آپس میں مکمل الفت و محبت اور اتفاق و اتحاد تھا۔اس کے ساتھ اس آیت میں یہ بھی بتلا دیا گیا کہ مختلف لوگوں کے دلوں کو جوڑ کر ان میں الفت و محبت پیدا کرنا کسی انسان کے بس کا کام نہیں صرف اس ذات کا کام ہے جس نے سب کو پیدا کیا ہے۔ اگر کوئی انسان ساری دنیا کی دولت بھی اس کام کے لئے خرچ کر ڈالے کہ باہم منافرت رکھنے والے لوگوں کے دلوں میں الفت پیدا کردے تو وہ کبھی اس پر قابو نہیں پاسکتا۔ جماعتوں اور افراد کے درمیان وحدت و اتفاق ایک ایسی چیز ہے جس کے محمود اور مفید ہونے سے کسی مذہب و ملت اور کسی فکر و نظر والے کو اختلاف نہیں ہوسکتا اور اسی لئے ہر شخص جو لوگوں کی اصلاح کی فکر کرتا ہے وہ انھیں آپس میں متفق کرنے پر زور دیتا ہے لیکن عام دنیا اس حقیقت سے بے خبر ہے کہ دلوں کا پورا اور پائیدار اتفاق ظاہری تدبیروں سے حاصل نہیں ہوتا یہ صرف اللہ تعالی کی اطاعت و رضاجوئی سے حاصل ہوتا ہے ۔ قرآن حکیم نے اس حقیقت کی طرف کئی آیتوں میں اشارے فرمائے ہیں ۔جیسا کہ ارشاد ہے: ﴿ وَاعْتَصِمُوا (