کتاب: دفاع صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ اجمعین - صفحہ 52
ثالثا:.... صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے معاملات میں پڑنا ایسا معاملہ ہے جس کاانجام اچھانہیں ہوتا ۔ ایک انسان اچھا بھلا صراط مستقیم پر چل رہا ہوتا ہے ؛مگر ایسے معاملات کو زیر بحث لاکر گمراہی کا شکار ہوجاتاہے۔اس کے دل میں اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے کسی ایک کے خلاف حسد و بغض پیدا ہوجاتا ہے۔ یہی کسی بھی بڑی گمراہی کا ابتدائی مرحلہ ہے۔دین اسلام سد ذرائع کے طور پر ایسے امور سے منع کرتا ہے۔
علامہ بربہاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی لغزشوں اور ان کے مابین پیش آنے والے واقعات کے متعلق گفتگو نہ کریں اور نہ ہی کسی ایسے معاملہ پر گفتگو کریں جس کا آپ کو صحیح علم نہیں اور اگر کوئی انسان اس
[1]
[1] [تعریف] کی ہے اور ہم ان کی عزت ،ومحبت وتوقیراور دوستی کوعبادت سمجھتے ہیں اورہر انسان سے برأت کا اظہار کرتے ہیں جوان کی شان میں کمی کرتا ہے ،اللہ تعالیٰ ان تمام[صحابہ ] پر راضی ہوجائے ۔‘‘ [ الابانۃ عن أصول الدیانۃ ص: ۲۲۴۔]
امام مزنی رحمہ اللہ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل بیان کیے جائیں گے اور ان کے اچھے افعال کا ذکر کیا جائے گا اور ہم ان کے باہمی جھگڑوں میں پڑنے سے بچ کر رہتے ہیں ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد روئے زمین پر سب سے بہترین لوگ یہی ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے ان کواپنے نبی کے لیے پسند کر لیا تھا، اور ان کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی نصرت کے لیے پیدا کیا تھا۔یہ لوگ دین کے آئمہ اور مسلمانوں کے راہنما ہیں ؛ اللہ تعالیٰ ان تمام پر رحم فرمائے ۔‘‘ [ شرح السنۃ۸۶۔]
امام بر بہاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ جب آپ کسی کو دیکھیں کہ کوئی شخص اصحاب ِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر طعن کررہا ہو ؛ تو جان لیجیے کہ وہ انتہائی بری بات کہنے والا خواہش نفس کا پجاری ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ’’ جب میرے صحابہ کا ذکر کیا جائے تو اپنی زبانوں کو روک لو۔‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا پتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کیا لغزشیں ہوں گی۔ پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صحابہ کے بار ے میں خیر اور بھلائی کی بات ہی کہی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ’’ میرے صحابہ کو چھوڑ دو ؛ اور ان کے بارے میں خیر کے علاوہ کچھ نہ کہو۔‘‘
ان کی لغزشوں اور جنگوں کے بارے میں آپ کچھ بھی نہ کہیں اور کوئی ان کی برائی بیان کررہا ہو تو اسے سنیں بھی نہیں ‘ کیونکہ اگر آپ نے ایسی باتیں سن لیں ‘ تو آپ کا دل سلامت نہیں رہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو صحابہ کے مابین پیش آنے والے قتال کے بارے میں آگاہ کردیا تھا]۔ مگر آپ نے ان کے بارے میں خیر کے علاوہ کچھ بھی نہیں کہا ۔ شرح السنۃ ۱؍ ۱۱۵۔
امام ابن بطہ رحمہ اللہ عقیدۂ أہل سنت والجماعت کے بارے میں فرماتے ہیں : ’’اور اس کے بعد ؛ جو کچھ صحابہ کے مابین پیش آیا ، اس میں دخل اندازی سے رک جاتے ہیں ۔ یقیناً ان لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معرکوں میں شرکت کی ہے؛ اور فضیلت حاصل کرنے میں لوگوں پر سبقت لے گئے اور یقیناً اللہ تعالیٰ نے ان کی مغفرت کردی ہے اور آپ کو ان کے لیے استغفار کرنے کا اور ان کی محبت سے اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل کرنے کا حکم دیا ہے اور اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی آپ پر یہ فرض کیا ہے اور آپ جانتے تھے کہ ان کے ساتھ کیا ہوگا اوربیشک یہ لوگ آپس میں جنگ کریں گے ۔ [الابانہ الصغری ص: ۲۶۸۔]
امام ابو عثمان الصابونی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’اور ان کا عقیدہ ہے کہ جو کچھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے مابین پیش آیا ، اس کے بیان کرنے سے رک جانا چاہیے اور اپنی زبانوں کو ان کے عیوب بیان کرنے سے ؛ اور ان کی شان میں گستاخی کرنے سے پاک رکھنا چاہیے اور ان کا عقیدہ ہے کہ ان تمام پر رحم کی دعا کی جائے ،اور ان تمام سے دوستی رکھی جائے۔‘‘ [عقیدۃ السلف و أصحاب ا لحدیث ص: ۲۹۴]