کتاب: دفاع صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ اجمعین - صفحہ 51
وہ سارے ان کے اجتہادی فیصلے تھے۔ان میں سے ہر ایک گروہ اپنی رائے کے مطابق حق کی نصرت کررہا تھا۔اس میں کوئی کوتاہی یادھوکہ بازی والی بات نہیں ۔ یہ معاملہ زیادہ سے زیادہ اس قاضی کی طرح ہوسکتا ہے جو کسی کو ادب سکھانے کے لیے سزادے۔ اب اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق بدگمانی رکھنا؛اور اپنے دلوں کو ان کے متعلق میلا اور کینہ پسند رکھناصرف ذلت اوررسوائی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔نہ ہی انہیں گھوڑا حاصل نہ ہی سامان سفر۔
حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے کتنی ہی خوبصورت بات کہی ہے؛فرمایا:
’’ اللہ تعالیٰ نے اس خون سے میرے ہاتھ کو بچا کر رکھا؛مجھے یہ بات نا پسند ہے کہ میں اپنی زبان اس میں ڈبو دوں ۔‘‘[1]
[1] أخرجہ ابن سعدفی الطبقات ۵؍ ۳۰۷؛ السنۃ للخلال ۱؍ ۶۲۔حلیۃ الأولیاء (۹؍۱۱۴) ۔وہ عظیم مبادیات جنہیں اس امت کے سلف نے مقررکیا ہے ؛ اور ان کے بعد آنے والے ائمہ اس پر چلتے رہے ہیں ، اورتمام اہل ِ سنت اس پر کاربند رہے ہیں [وہ]: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی چپقلشوں پر خاموشی اختیار کرنا ؛ اوران تمام کے لیے رحمت کی دعا کرنا ، اور ان سب سے محبت رکھنا ،اور انہیں صرف اچھے لفظوں میں ایسے یاد رضي الله عنهم کرنا ہے جیسے سلف اوران کے بعد کے اہل علم کا طریقہ رہا ہے ۔
اس لیے کہ ان جھگڑوں میں ہر دو فریق مجتہد تھے۔ ان میں سے حق پانے والے کے لیے دو اجر ہیں اور خطا کرجانے والے کے لیے ایک اجر ہے۔ آپ کو یہ اچھی طرح سے جان لینا چاہیے کہ بروز قیامت اللہ تعالیٰ آپ سے آپ کے اعمال کے بارے میں سوال کریں گے ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿کُلُّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ رَہِیْنَۃٌ ﴾ (المدثر: ۳۸) ’’ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے گروی پڑا ہوا ہے۔‘‘ اور جو لوگ آپ سے پہلے گزر چکے ہیں یا کسی دوسرے کے بارے میں آپ سے کوئی سوال نہیں کیا جائے گا اور آپ سے یہ بھی نہیں پوچھا جائے گا کہ حق کس کے ساتھ تھا؟ اور ان میں سے کون ٹھیک تھا اور کون غلط؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿تِلْکَ اُمَّۃٌ قَدْ خَلَتْ لَہَا مَا کَسَبَتْ وَ لَکُمْ مَّا کَسَبْتُمْ وَ لَا تُسْئَلُوْنَ عَمَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ [البقرۃ۱۳۴] ’’یہ ایک جماعت تھی جو گزر چکی۔ جو کچھ اس جماعت نے اعمال کیے وہ ان کے لیے ہیں اور جو کچھ تم کمائو گے وہ تمہارے لیے ہے اور تم سے یہ نہ پوچھا جائے گا کہ وہ کیا کرتے تھے۔‘‘
حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں :اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال آنکھ کی مثال ہے اور آنکھ کی بہتری اس سے چھیڑ چھاڑ نہ کرنے میں ہے۔ [احکام القرآن للقرطبی (۱۶؍۱۲۲]
حضرت امام حمد بن حنبل رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا :حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہما کے مابین ہونے والی جنگوں کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا:میں ان کے متعلق صرف خیر کے کلمات کہتا ہوں اللہ تعالیٰ ان سب پر رحم فرمائیں ۔‘‘ [السنۃ للخلال۲؍۴۶۰]
ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جو کچھ حضرت علی ،حضرت زبیر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم کے مابین پیش آیا، بیشک وہ تاویل اور اجتہاد کی وجہ سے تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ امام [حکمران] تھے، اوریہ سب لوگ اہل اجتہاد تھے اوریقیناً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے جنت کی گواہی دی ہے ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اس اجتہاد میں حق پر تھے۔‘‘
ایسے ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے مابین بھی جو کچھ پیش آیا ،وہ تاویل اور اجتہاد کی وجہ سے تھا۔ تمام صحابہ امانت دار ائمہ ہیں ،ان میں سے کسی ایک کی بھی دین داری پر کوئی تہمت نہیں ہے ۔ اللہ اور اس کے رسول نے ان سب لوگوں کی ثنا(