کتاب: دفاع صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ اجمعین - صفحہ 414
ہوں جس نے ان سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی، اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔‘‘[1]
فرماتے ہیں :’’ میں جب بھی حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ کو دیکھتا ہوں ، تو میرے آنسو نکل جاتے ہیں ۔‘‘
قصہ یہ ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو مجھے مسجد میں پایا، آپ نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے ساتھ لے لیا اور مجھ پر ٹیک لگالی۔ میں آپ کے ساتھ چل پڑا۔ حتیٰ کہ ہم بنو قینقاع کے بازار میں پہنچے، آپ نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی، ایک چکر لگا کر دیکھا اور واپس پلٹ گئے، میں بھی آپ کے ساتھ واپس ہو گیا۔ آپ مسجد میں ٹیک لگا کر بیٹھے اور فرمانے لگے: بچوں کو بلالاؤ۔ اتنے میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ دوڑتے ہوئے آئے، اور آپ کی گود میں بیٹھ گئے، آپ نے اپنا ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی مبارک میں داخل کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کا منہ کھولتے، اور اپنی زبان اس میں دخل کر دیتے اور فرماتے:’’ اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں ، تو بھی اس سے محبت کر۔‘‘[2]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مجھ پر آسمانوں سے فرشتہ نازل ہوا، اور اس نے مجھے یہ بشارت سنائی کہ سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا میری امت کی عورتوں کی سردار ہیں اور یہ کہ حسن اور حسین رضی اللہ عنہما جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں ۔[3]
سعید بن ابو سعید المقبری سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے، اتنے میں حضرت حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تشریف لائے۔ آپ نے سلام کیا، ہم نے سلام کا جواب دیا۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو اس کا علم نہ ہو سکا ۔ہم نے بتایا: اے ابو ہریرہ! یہ حسن بن علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے ہیں ۔ انہوں نے ہمیں سلام کیا ہے، آپ اٹھ کر ان سے ملے اور کہا: اے میرے سردار! وعلیکم السلام.... پھر فرمایا:
’’ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’یہ سید (سردار) ہے۔‘‘[4]
مساور السعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں : جب حسن بن علی رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی وفات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں کھڑے رو رہے تھے، آپ بلند آواز میں رو رہے تھے اور کہہ رہے تھے:’’ اے لوگو! آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حبیب مرگیا ہے، آج خوب رؤو۔‘‘[5]
[1] احمد: ۹۶۷۱۔ المستدرک: ۳؍۱۸۲۔
[2] مستدرک حاکم: ۳؍۱۸۵۔ ۴۷۹۱۲۔
[3] الترمذی: ۳۷۸۱
[4] الحاکم: ۳؍۱۸۵۔ برقم: ۴۷۹۲۔
[5] تاریخ دمشق ۱۳؍۲۹۵۔ سیر اعلام النبلاء: ۳؍۲۷۷۔ البدایۃ ولا لنہایۃ: ۸؍۴۴۔