کتاب: دفاع صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ اجمعین - صفحہ 412
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ؛ اس دن کے علاوہ میں نے کبھی بھی امیر بننا پسند نہیں کیا۔ ہم نے رات اس حالت میں گزاری کہ ہم میں سے ہر ایک اس بات کی امید کرنے لگا کہ یہ پر چم ہمیں مر حمت ہوگا، لیکن دوسرے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ کی موجودگی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلایااورانھیں وہ علم دیا اور فرمایا: ’’سیدھے چلتے جاؤ۔ دائیں بائیں مت مڑنا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ تھوڑی دیر چلے اور پھر رک گئے اور ادھر ادھر مڑے بغیر چیخ کر پوچھا: ہم ان کافروں سے کس بات پر جنگ کریں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ان سے أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ و أشہد أن محمداً رسول اللّٰہ کی گواہی پر جنگ کرو۔ اگروہ اس کا اقرار کرلیں تو ان کی جانیں اور اموال محفوظ ہوجائیں گے سوائے اسلام کے حق کے اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہوگا۔‘‘ ۲۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے حق میں فرمایا: ’’اے اللہ! میں اس سے محبت کر تا ہوں ، تو بھی اس سے محبت کر اور جو کوئی اس سے محبت کرے اس سے بھی محبت کر۔‘‘[1] ’’ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : جب سے میں نے یہ فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سنا ہے۔ اس وقت سے میرے لیے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے بڑھ کر محبوب کوئی دوسرا نہیں ہوسکا۔‘‘ ۳۔میں اس وقت ہمیشہ سے اس آدمی سے محبت کر تا ہوں جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے کرتے دیکھا ہے۔ میں نے دیکھا کہ حسن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں بیٹھے ہوئے تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زبان ان کے منہ میں داخل کر رہے تھے، اور فرما ر ہے تھے: اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں ، تو بھی اس سے محبت کر۔‘‘[2] میں حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا۔ جب آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورت برأت دیکر اہل مکہ کی طرف روانہ فرمایا۔ آپ سے پوچھا گیا: آپ کس چیز کی منادی کرتے تھے؟ تو فرمایا: ہم یہ منادی کرتے تھے : ٭....’’جنت میں اہل ایمان کے علاوہ کوئی دوسرا داخل نہیں ہوگا۔ ٭....اور کوئی ننگا ہو کر بیت اللہ کا طواف نہ کرے۔ ٭.... اور جس کسی کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی متعین مدت کا معاہدہ تھا، وہ اپنی مدت چار ماہ پوری کرے گا۔
[1] بخاری: ۵۸۸۴۔ [2] مستدرک حاکم: ۳؍۱۸۵، ح، ۴۷۹۱۔