کتاب: دفاع صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ اجمعین - صفحہ 410
رہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔
﴿ مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا وَمَنْ جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزَى إِلَّا مِثْلَهَا وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ﴾ [الانعام: ۱۶۰]
’’جو شخص نیکی لے کر آئے گا تو اس کے لیے اس جیسی دس نیکیاں ہوں گی اور جو برائی لے کر آئے گا سو اسے جزا نہیں دی جائے گی، مگر اسی کی مثل اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔‘‘
یہ اقرار امام صاحب کر رہے ہیں کہ یہ تخفیف اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے مؤمن بندوں پر اس کی رحمت اور مہربانی ہے۔
آیت اللہ العظمی میرزا الشیخ جواد تبریزی اس حدیث کے متعلق سوال کرنے والے سائل پر رد کرتے ہوئے کہتا ہے :
’’سند کے اعتبار سے اس روایت میں کوئی حرج نہیں ۔ صدوق نے یہ روایت ’’الفقیہ‘‘ میں روایت کی ہے، اس کے علاوہ اور بھی کچھ روایات نقل کی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت پر نماز کی تخفیف کے لیے اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے رہے اور اللہ تعالیٰ نے تخفیف فرمائی، حتیٰ کہ سترہ رکعات باقی رہ گئیں ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ سات رکعات زیادہ کیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے یہ مطالبہ اپنی امت پر شفقت کی وجہ سے کرتے رہے اور اللہ تعالیٰ آپ کی بزرگی کی وجہ سے آپ کی بات مانتے رہے۔‘‘[1]
٭٭٭
[1] علل الشرائع ص: ۱۳۲۔