کتاب: دفاع صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ اجمعین - صفحہ 41
علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’بلا شبہ ہمیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے احوال کے متعلق بحث کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اس لیے کہ اہل حق اہل سنت و الجماعت کا اجماع ہے کہ تمام کے تمام صحابہ عادل ہیں ۔‘‘[1] ۳۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین افضلیت کا عقیدہ: اہل سنت و الجماعت کے ہاں یہ طے شدہ ہے کہ فضیلت میں تمام صحابہ کرام برابر ہیں ؛ مگر ان کے درمیان افضلیت کا فرق ہے۔ ان میں سے بعض کو ایسی افضیلت حاصل ہے جس سے دوسرے کی فضیلت میں کچھ کمی نہیں آتی۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں مطلق طور پر عشرہ مبشرہ افضل ہیں ۔ان میں سے چار حضرات خلفائے راشدین ہیں اور چھ ان کے علاوہ ہیں ۔ان میں حضرت سعید حضرت سعدحضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت طلحہ حضرت عامر اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہم شامل ہیں ۔ ان عشرہ مبشرہ میں سے افضل چاروں خلفائے راشدین ہیں اور ان کی افضلیت کی ترتیب خلافت کی ترتیب کے اعتبار سے ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرات شیخین جناب ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کا مقام و مرتبہ ان چاروں میں سے بلند و بالا ہے۔ یہ حضرات علی الاطلاق انبیائے کرام علیہم السلام کے بعد افضل ترین ہستیاں ہیں ۔ان دو میں سے بھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مقام زیادہ بلند و بالا ہے۔ یہاں پر ایک بہت ہی عمدہ عقیدہ اور ایک سنہری قول ذکر کرنا ضروری ہے جو کہ سادات اہل بیت کے سردار جناب حضرت امام جعفر صادق رحمہ اللہ سے منقول ہے ۔ آپ فرماتے ہیں : ’’ جو کوئی ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی فضیلت نہیں پہچانتا تو وہ سنت سے جاہل ہے۔‘‘[2] امام شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما سے محبت رکھنا اور ان کی فضیلت کی معرفت حاصل کرنا سنت میں سے ہے ۔‘‘[3] پھر ان عشرہ مبشرہ کے بعد اہل بدر کا مقام و مرتبہ ہے۔پھر اہل أحد کا؛ پھر بیت رضوان والوں کا۔
[1] الاستعیاب ۱؍۱۰۳۔محدث علامہ سلیمان العلوان اپنی کتاب [الاستنفار للذب عن الصحابہ الاخیار ص 20 پر] فرماتے ہیں :’’بعض خواہشات نفس کے مارے ہوئے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ صحابیت صرف ایک مہاجر اور ایک انصاری کے لیے ثابت ہوتی ہے۔ تو اس صورت میں بعد میں آنے والوں کی عدالت صرف اسی طرح ثابت ہوسکتی ہے جس طرح کہ تابعین اور بعد میں آنے والے دوسرے لوگوں کی عدالت ثابت ہوتی ہے۔یہ بہت بڑی غلط بیانی ہے۔ اہل سنت و الجماعت میں سے کسی ایک نے بھی ایسی کوئی بات نہیں کہی۔‘‘ [2] الحجۃ فی بیان المحجۃ وشرح عقیدۃ أھل السنۃ و الجماعۃ ۲؍۳۵۰۔ [3] ایضاً ، ۳؍۳۳۷۔