کتاب: دفاع صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ اجمعین - صفحہ 409
جواب:.... ’’الو سائل‘‘ میں الحرالعاملی نے باب باندھا ہے :باب ہر دن اور رات میں ایک ہزار رکعت پڑھنے کے بیان میں بلکہ ہر دن، اور ہر رات میں اگر ممکن ہو۔‘‘ اس باب میں ائمہ اہل بیت سے نواحادیث مروی ہیں ۔[1] باب ہر دن اور رات میں ایک ہزار رکعت کے استحباب کے بیان میں ، بلکہ ہر دن میں اور ہر رات میں ، ماہ رمضان اور دیگر میں لیلۃ القدر کے ساتھ۔‘‘[2] ابو جعفر سے روایت ہے، وہ کہتا ہے: اللہ کی قسم! حضرت علی رضی اللہ عنہ غلاموں کی طرح کھانا کھاتے تھے.... آگے چل کر کہتا ہے.... اور آپ ہر دن اور رات میں ایک ہزار رکعت پڑھا کرتے تھے۔‘‘[3] آپ سے ہی روایت ہے کہتے ہیں : حضرت علی بن حسین علیہ السلام ہر دن اور رات میں ایک ہزار رکعت پڑھا کرتے تھے، جیسا کہ حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کیا کرتے تھے۔ [4] صدوق نے ابو بصیر سے روایت کیا ہے کہ امام صادق نے فرمایا ہے: ہمارے شیعہ اہل ورع لوگ ہیں .... اہل زہدوعبادت ہیں اور ہر دن اور رات میں اکیاون رکعات پڑھنے والے ہیں ۔‘‘ حائری نے باب ’’النوافل الیومیۃ‘‘ میں کہا ہے: ’’جہاں تک یومیہ نوافل کا تعلق ہے، ان کی مجموعی تعدادفرائض کی مجموعی تعداد کا دوگنا ہے۔ یہ چونتیس رکعات ہیں ۔‘‘[5] ابن بابویہ القمی نے یہ حدیث زین العابدین سے روایت کی ہے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل اللہ تعالیٰ سے عرض کرتے اور بات کرتے رہے، اس چیز کے بارے میں جس کا حکم رب نے دید یا تھا۔ جب موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا، تو وہ آپ کی امت کے حق میں آپ کے سامنے شفاعت کر رہے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جائز نہیں تھا کہ اپنے بھائی کی سفارش کو رد کر دیں ۔ آپ اپنے رب کے پاس واپس گئے، اور رب تعالیٰ سے تخفیف کا سوال کیا۔ حتیٰ کہ پانچ نماز یں رہ گئیں ۔ فرماتے ہیں : میں نے کہا: ابا جی: آپ نے پھر جاکر اپنے رب سے تخفیف کا سوال کیوں کیا، حالانکہ موسیٰ علیہ السلام نے کہا تھا کہ اپنے رب سے دوبارہ تخفیف کا سوال کریں ۔ تو آپ نے فرمایا: اے بیٹے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ چاہتے تھے کہ تخفیف کے ساتھ ساتھ پچاس نمازوں کا اجر بھی باقی
[1] الوسائل: ۳؍۷۱۔ [2] المصدرالسابق: ۵؍۱۷۶۔ [3] البحار: ۸۲؍۳۱۰۔ [4] ایضًا : ۴۱؍۱۵۔ [5] احکام الشیعہ لمیرزا الحائری: ۱؍۱۷۳۔