کتاب: دفاع صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ اجمعین - صفحہ 38
شَهِيدًا ﴾(البقرۃ:۱۴۳) ’’اور اسی طرح ہم نے تمھیں سب سے بہتر امت بنایا، تاکہ تم لوگوں پر شہادت دینے والے بنو اور رسول تم پر شہادت دینے والا بنے ۔‘‘ اس آیت سے استدلال بھی سابقہ آیت کی طرح ہے۔بلکہ ہر وہ آیت اور حدیث جس میں اس امت کی فضیلت بیان ہوئی ہے؛اس میں سب سے پہلے اور بدرجہ اولیٰ داخل ہونے والی جما عت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ہے۔ جب کہ حدیث شریف میں بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عظمت کھلے الفاظ میں بیان ہوئی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ستارے آسمان کے لیے باعث امن ہیں جب ستارے رخصت ہو جائیں گے تو آسمان سے جس چیز کا وعدہ کیا گیا ہے وہ پورا کر دیا جائے گا۔ا سی طرح میری ذات صحابہ کے لیے باعث امن وسکون ہے جب میں نہیں ہوں گا تو صحابہ موعود مصائب سے دوچار ہوجائیں گے۔ میرے صحابہ میری امت کے لیے باعث امن ہیں جب میرے صحابہ رخصت ہو جائیں گے تو امن و امان اٹھ جائے گا۔‘‘ [1] امام ابوالعباس ؛قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’اس سے مراد یہ ہے کہ جب تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم موجود رہیں گے تو دین قائم رہے گا؛اور حق کو غلبہ و استحکام نصیب ہوگا؛دشمنوں پر فتح و نصرت ملتی رہے گی۔ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم چلے جائیں گے تو أھواء پرستی کادور دورا ہوجائے گا اور دشمن کے دن پھر جائیں گے اور اس دین میں کمی آتی رہے گی۔حتی کہ حالت یہ ہوجائے گی کہ زمین پر اللہ تعالیٰ کا نام لینے والا کوئی باقی نہیں رہے گا۔ یہی وہ چیز ہے جس کا اس امت سے وعدہ کیا گیا ہے ۔‘‘[2] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ’’میرے صحابہ کو گالی مت دو۔ اگر تم میں سے کوئی ایک احد پہاڑ کے برابر سونا بھی خرچ کردے‘وہ ان میں سے کسی ایک کی مٹھی یا اس کے آدھے کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔‘‘ [بخاری] علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر بہت خوبصورت تبصرہ کیا ہے‘ فرماتے ہیں : ’’اس حدیث میں مخاطب لوگ جو کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد آنے والے ہیں ؛ان کا احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرنا بھی اپنے متقدمین کی ایک یا آدھی مٹھی جو کے خرچ کو نہیں پہنچ سکتی تو
[1] مسلم؛ ح:۲۵۳۱۔ [2] المفہم(۶؍۴۸۵)۔