کتاب: دفاع صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ اجمعین - صفحہ 34
اس عقیدہ پر تمام اہل اسلام کا اجماع ہے۔اور اس بارے میں ان بھٹکے ہوئے گمراہ اہل بدعت فرقوں کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں جو اس سے اختلاف رکھتے ہیں ۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ اپنے قصیدہ نونیہ میں فرماتے ہیں : ’’ تمام علمائے کرام کااجماع ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انسانیت کے سب سے بہترین لوگ تھے۔یہ عقیدہ ضروری طور پر معلوم ہے‘ اور اس میں دو انسانوں کے مابین بھی کوئی اختلاف نہیں اور نہ ہی کوئی دوسرا قول نقل کیا گیا ہے ۔‘‘[1] صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل کے دلائل بہت زیادہ ہیں ۔ کتاب اللہ اس بزرگ جماعت کی مدح و تعریف میں خوشبوؤں کے جھونکے بکھیر رہی ہے۔اس لیے کہ دلوں کے راز جاننے والے اللہ تعالیٰ علام الغیوب اور علیم بذات الصدور کو ان کی صداقت اور ایمان کی درستگی، خالص محبت، وافر عقل پختہ رائے اور کمال خیر خواہی امانت داری اور اصلاح کا علم تھا۔ ان قرآنی دلائل میں سے ایک یہ فرمان الٰہی ہے: ﴿ وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ﴾ (التوبۃ: ۱۰۰) ’’اور مہاجرین اور انصار میں سے سبقت کرنے والے سب سے پہلے لوگ اور وہ لوگ جو نیکی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے، اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے اور اس نے ان کے لیے ایسے باغات تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ؛یہی
[1] نونیۃ ابن القیم مع شرحہاتوضیح المقاصد لابن عیسی (۲؍۴۶۱)۔ اہل سنت والجماعت کا اجتماعی عقیدہ ہے کہ تمام صحابہ کرام عادل ہیں :ان کی عدالت کے متعلق پوچھ گچھ یا سوال کرنا جائز نہیں ۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :تمام صحابہ رضی اللہ عنہم عدول ہیں ۔ وہ بھی جو فتنوں میں مبتلا ہوئے اور دوسرے بھی۔اس پر تمام معتمد علما کا اجماع ہے۔ [تقریب النووی:۲۱۴] حافظ ابن صلاح رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’تمام امت کا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عادل ہونے پر اتفاق ہے وہ صحابہ بھی عادل ہیں جو کہ فتنوں میں مبتلا ہوئے[اوردوسرے بھی]۔ [الحدیث والمحدثون:۱۲۹] علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عدالت اللہ اور اس کے رسول سے ثابت ہے ۔ اب ان کے متعلق کسی سے سوال کرنے کی ضرورت نہیں ۔ عدالت کاسوال ان کے بعد کے لوگوں کے متعلق کیا جائے گا۔ [الکفایۃ فی علم الروایۃ:۴۶] اہل ِ سنت والجماعت کا ان سے محبت اور دوستی رکھنے پر اتفاق ہے اور اس میں اہل ِ بدعت کے علاوہ کوئی اس عقیدہ کا مخالف نہیں ہے ۔