کتاب: دفاع صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ اجمعین - صفحہ 33
سے روایت کیا ہے ؛[وہ فرماتے ہیں ]:
’’ سلف صالحین اپنے بچوں کوحضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے محبت کرنا ایسے سکھاتے تھے جیسے قرآن کی سورت سکھائی جاتی ہے ۔‘‘[1]
امام ابو نعیم نے اپنی کتاب ’’الحلیۃ‘‘ میں حضرت بشر بن حارث رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے‘ آپ فرمایا کرتے تھے:
’’اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں میرا سب سے زیادہ پختہ [اور پر امید ]عمل أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہے ۔‘‘[2]
نیز آپ نے حضرت شعیب بن حرب رحمہ اللہ سے یہ بھی روایت کیا ہے؛ فرمایا:
’’عاصم بن محمد رحمہ اللہ کی مجلس میں حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ کا ذکر کیا گیا؛ اور ان کے مناقب شمار کیے جانے لگے ۔ یہاں تک کہ تقریباً پندرہ مناقب شمار کیے گئے تو عاصم بن محمد رحمہ اللہ نے پوچھا: کیا تم لوگ اپنی گفتگو سے فارغ ہوگئے؟
مجھے ایک ایسی منقبت کا بھی علم ہے جو ان تمام سے افضل ہے؛وہ یہ ہے کہ : آپ کا سینہ أصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بالکل صاف تھا۔‘‘ [3]
۲۔ فضیلت و عدالت کا عقیدہ:
[یہ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تمام کے تمام عادل اور باقی امت کے تمام لوگوں سے افضل ہیں ؛اوروہ اس امت کے چنیدہ و برگزیدہ لوگ تھے؛ جو کہ ایمان میں کامل اور حق و صواب کے سب سے زیادہ قریب تھے]۔پوری امت میں فضیلت ؛نیکی اور درست رائے میں کوئی دوسرا صحابہ جیسا نہیں ۔[4]
[1] شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ ۷؍ ۱۲۴۰۔برقم (۲۳۲۵)۔تاریخ مدینۃ دمشق (۴۴؍۳۸۳)۔الحجۃ في بیان المحجۃ (۲؍۳۳۸)۔
[2] شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ ۸؍ ۳۳۸۔ حضرت بشر بن حارث رحمہ اللہ فرماتے ہیں : میں نے مالک بن مغول رحمہ اللہ سے کہا : مجھے وصیت کیجیے ۔ فرمایا: ’’میں تمہیں جناب شیخین حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما سے محبت کی وصیت کرتا ہوں ۔‘‘ کہتے ہیں میں نے [پھر دوبارہ] کہا: مجھے وصیت کیجیے ۔ فرمایا: ’’میں تمہیں جناب شیخین حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما سے محبت کی وصیت کرتا ہوں ۔‘‘ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے اس سے بہت زیادہ بھلائی عطا کی ہے ؟ فرمایا: ’’ ہاں ؛ اللہ کی قسم ! میں تمہارے لیے ان دونوں حضرات کی محبت پر وہ [انعام و بدلہ ملنے کی] امید کرتا ہوں ، جس انعام وبدلے کی امید تمہارے لیے توحید بجالانے پر کی جاسکتی ہے۔ ‘‘
(شرح اصول أعتقاد أہل سنت : ۷؍ ۱۲۴۵)
[3] شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ ۸؍ ۱۲۴۰۔
[4] الدرۃ المضیۃ في عقیدۃ الفرقۃ المرضیۃ مع شرحہا لوامع الأنوار(۲؍۳۷۷)۔