کتاب: دفاع صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ اجمعین - صفحہ 327
گے۔ جیسا کہ عمر وابن العاص بنی سہم کے سردار نے منادی کرائی تھی کہ کیا کل امیرا لمؤمنین کو قتل کیا گیا ہے اور آج ان کے بیٹے کو قتل کر دیاجائے گا؟ اللہ کی قسم ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ یہ ان کے ہاں بھی ایسے ہی ثابت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ قاتلین عثمان سے صرف فتنہ بپا ہونے کے خوف سے قصاص نہ لے سکے تھے ۔[1]
[1] معترض کا مبلغ علم یہ ہے کہ وہ ہرمزان کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا آزاد کردہ غلام بتاتے ہیں حالانکہ وہ آپ کا غلام نہ تھا ] بلکہ ہرمزان ان فارسیوں میں سے تھا جنہیں کسری نے مسلمانوں سے جنگ کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ مسلمانوں نے اسے قید کیا تھا،اور پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کیاگیا۔اس نے اسلام کا اظہار کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر احسان کرکے اسے آزاد کردیا تھا۔ اگر اس پر کسی کی ولایت تھی تو وہ مسلمانوں کی تھی۔اور اگر آزاد کرنے کی وجہ سے کسی کی ولایت اس پرتھی تو پھر وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہیں ۔اور اگر اس پر کسی کی کوئی ولایت نہیں تھی بلکہ اس کا معاملہ ان قیدیوں کی طرح تھا جنہیں اگر احسان کرکے آزاد کردیا جائے تو ان پر کوئی ولایت نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ علمائے کرام کا اختلاف ہے کہ اگر قیدی اسلام قبول کرلے تو کیا وہ اپنے اسلام کے باوجود غلام بن جائے گا یا پھر آزاد ہی رہے گا۔ اس پر احسان کرکے آزاد کرنا اور اس کے بدلہ میں فدیہ لے کر آزاد کرنا دونوں امر جائز ہیں جیسے اسلام سے پہلے تھا؟حالانکہ اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ قیدی اسلام لانے کی وجہ سے معصوم الدم ہوگیا تھا ۔اس مسئلہ میں دو قول مشہور ہیں ۔اور امام احمد رحمہ اللہ کے مذہب میں بھی دو قول ہیں ۔جبکہ اس کو غلام بنانے اور آزاد کرنے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جہد وسعی کو کوئی دخل نہیں ہے۔
جب حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو قتل کیاگیا تو آپ کو قتل کرنے والا شخص حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا مجوسی غلام ابو لؤلؤ فیروز تھا۔ ابو لؤلؤ اور ہرمزان کے مابین مجانست پائی جاتی تھی اور عبید اللہ بن عمر رحمہ اللہ کو بتایا گیا کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو قتل کیا گیا اس وقت ابو لؤلؤ کو ہرمزان کے ساتھ دیکھا گیا تھا۔ ہرمزان اس بات سے متہم تھا کہ اس نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قاتل کی امداد کی ہے۔
جب عبید اﷲ نے ہرمزان کو قتل کردیا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو آپ نے عبید اﷲ کو ہرمزان کے قصاص میں قتل کرنے کے بارے میں صحابہ رضي الله عنهم سے مشورہ لیا۔ متعدد صحابہ نے اس کو قتل نہ کرنے کا مشورہ دیا اور کہا ابھی کل اس کے والد حضرت عمر رضی اللہ عنہ شہید ہوئے اورآج اسے قتل کردیا جائے تو اس سے بڑا فساد رونما ہو گا۔ گویا ان کے نزدیک ہرمزان کا معصوم الدم ہونا مشتبہ تھا۔سوال یہ ہے کہ کیا ہرمزان کا شمار ان حملہ آور فسادیوں میں تھا جن سے دفاع کرنے کااستحقاق حاصل ہے ۔ یا پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قتل میں شریک لوگوں میں سے تھا جن کا قتل جائز تھا؟
علماء و فقہاء کا قتل میں شریک لوگوں کے بارے میں ؛ جب بعض قتل کریں اور بعض اس کے پیچھے کارفرما ہوں ؛ تواس میں اختلاف ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ قصاص صرف براہ راست قتل کرنے والے سے لیا جائے گا۔ یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے۔دوسرا قول یہ ہے کہ : جب سبب قوی ہو تو مباشر [براہ راست قتل کرنے والا ] اور متسبب [ اس کا سبب بننے والا] دونوں کو قصاص میں قتل کیا جائے گا جیسے کہ مجبور کیا گیا اور مجبور کرنے والا ۔ اس کی مثال زنا اور قصاص کے گواہوں کی ہے جب وہ اپنی گواہی سے رجوع کریں اور کہیں کہ ہم نے جان بوجھ کر یہ جھوٹی گواہی دی تھی۔جمہور جیسے امام مالک ‘ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کا یہ مسلک ہے۔
پھر اگر ایک نے پکڑا ہو اور دوسرے نے قتل کیا ہو تو امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں : پکڑنے والے اور قتل کرنے والے دونوں کوقصاص میں قتل کیا جائے گا۔ امام احمد رحمہ اللہ سے بھی دوروایتوں میں سے ایک یہی ہے اور دوسری روایت یہ ہے کہ قتل کرنے والے کو قتل کیا جائے گا اور پکڑنے والے کو تاحیات قیدکیا جائے گا یہاں تک کہ وہ مر جائے۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کیا گیا ہے کہ قصاص صرف قتل کرنے والے پر ہے ۔ یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کا مذہب ہے۔ ہرمزان کا کوئی عصبی وارث نہیں تھا سوائے حاکم ِ وقت کے ولی ہونے کے۔جب کوئی ایسا آدمی قتل ہوجائے جس کا کوئی والی و وارث نہ ہو تو حاکم کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ اس قاتل کو قتل کردے اور اسے یہ بھی اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ اسے قتل نہ کرے ‘ بلکہ دیت لے لے۔یہ دیت مسلمانوں کا حق ہوگی۔ اسے بیت المال کے مصارف میں خرچ کیا جائے گا۔ جب آپ نے آل عمر کا معاملہ دیت پر چھوڑ دیا تو اس دیت میں مسلمانو ں کے حق کا کچھ حصہ بھی تھا۔
بہر کیف !جو بھی ہو جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں معاف کردیاتھا تو اس کے بعد قتل کا مطالبہ بالکل بے معنی ہے ۔ ہم نہیں جانتے کہ اس مسئلہ میں مسلمانوں کا کوئی اختلاف ہو۔] (مترجم)