کتاب: دفاع صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ اجمعین - صفحہ 315
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے متعلق شبہات حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل پر صحابہ کا اجماع: کہتے ہیں : حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے والے خود صحابہ ہیں ، ان میں پیش پیش حضرت عائشہ رضی اللہ عنہااُم المؤمنین ہیں ، جو کہ آپ کو قتل کرنے اور آپ کا خون مباح ہونے کی منادی تمام لوگوں کے سامنے کرتی تھیں اور صحابہ نے آپ کا جثہ مسلمانوں کے قبر ستان میں دفن نہیں ہونے دیا۔ پھر آپ کو بغیر غسل اور کفن کے ایک ڈھیر میں دفن کر دیا گیا۔ جواب: ....صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نہ ہی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل میں شریک تھے اور نہ ہی اس پر راضی تھے۔ بلکہ اس کے برعکس صحابہ آپ کے دفاع کے لیے آپ کے پہلو بہ پہلو کھڑے تھے۔ مگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو فتنہ پھیلنے کا خوف تھا۔ اس لیے آپ نے اپنے دفاع سے منع کر دیا۔ آپ کو علم تھا کہ آپ بحالت مظلومیت قتل کر دے جائیں گے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اس کی بشارت سنائی تھی، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فتنہ کا ذکر کیا گیا، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اور اس فتنہ میں یہ مظلوم قتل ہوگا۔‘‘ یعنی حضرت عثمان۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے : ’’.... پھر ایک اور شخص نے اجازت مانگی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر خاموش رہے اور اس کے بعد فرمایا کہ:’’ اس کو آنے کی اجازت دو اور اس کو جنت کی بشارت دو اس مصیبت پر جو اس کو پہنچے گی۔‘‘ دیکھا تو حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ تھے۔‘‘ [1] بڑے بڑے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دفاع میں شریک تھے اور انہوں نے قاتلین عثمان پر اپنے غضب کا اعلان کیا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ خود ہاتھ اٹھا کر قاتلین عثمان پر لعنت کیا کرتے تھے۔ عبدالرحمن بن لیلی کہتے ہیں : میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا آپ اپنے دامن اٹھائے ہوئے دعا کر رہے تھے:
[1] صحیح بخاری: ۳۶۹۵۔ اس روایت کے پہلے حصہ کے الفاظ یہ ہیں : ایک روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی باغ میں تشریف لے گئے اور مجھ کو دروازہ کی حفاظت کا حکم دیا۔ پھر ایک شخص نے اندر آنے کی اجازت طلب کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کو اجازت دے دو اور اس کو جنت کی بشارت بھی دے دو۔ دروازہ کھول کر میں نے دیکھا تو وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے۔ پھر ایک اور شخص نے اندر آنے کی اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس کو بھی آنے کی اجازت دو اور اس کو بھی جنت کی بشارت دے دو۔‘‘ دروازہ کھول کر دیکھا تو وہ عمر رضی اللہ عنہ تھے۔