کتاب: دفاع صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ اجمعین - صفحہ 303
میں ہمارے لیے حلال کی ہے ؟
آپ نے فرمایا: ’’ کتاب اللہ میں کہاں ہے ؟
وہ کہنے لگی : اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا ﴾ [النساء: ۲۰]
’’اور تم ان میں سے کسی کو ایک خزانہ دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لو۔‘‘
اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ ہر ایک عمر سے بڑا فقیہ ہے ۔‘‘ یہ جملہ آپ نے دو یا تین بار فرمایا۔
پھرمنبر پرواپس گئے اورفرمایا:’’ میں نے تمہیں عورتوں کو زیادہ مہر دینے سے منع کیا تھا پس جس کا جو جی چاہے اپنے مال میں ویسے ہی کرے۔‘‘[1]
یہ روایت سند اور متن دونوں اعتبار سے باطل ہے۔
سند کے لحاظ سے اس میں دو علتیں ہیں ، پہلی علت: انقطاع امام بیہقی رحمہ اللہ نے یہ حدیث ذکر کرنے کے بعد کہا ہے: یہ روایت منقطع ہے، اس لیے کہ شعبی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا۔
ابن ابی حاتم رازی نے کتاب ’’المراسیل‘‘ میں کہا ہے، میں نے اپنے والد سے اور ابو زرعہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ امام شعبی رحمہ اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مرسلاً روایت کیا ہے۔
دوسری علت:اس کی سند میں مجالد ہے، اس کے باپ کا نام سعید ہے۔ اس کے متعلق امام بخاری نے کہا ہے: ابن مہدی اور یحییٰ القطان رحمہ اللہ شعبی رحمہ اللہ سے اس کی روایات قبول نہیں کرتے تھے۔[2]
امام نسائی رحمہ اللہ نے کہا ہے: اہل کوفہ میں سے ہے۔ ضعیف ہے۔
جوز جانی نے کہا ہے: مجالدبن سعید ضعیف احادیث روایت کرتا ہے۔‘‘
ابن عدی رحمہ اللہ نے کہا ہے:’’ میں نے احمد بن حنبل سے مجالد کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: ناقابل ذکر انسان ہے، ان منکر روایات کو بھی مرفوع بتاتا ہے جنہیں لوگ مرفوع نہیں کہتے۔ اسی وجہ سے لوگ اس سے کتراتے ہیں ۔
ابن عدی رحمہ اللہ نے یہ بھی کہا ہے: اس کی اکثر روایات محفوظ نہیں ہوتیں ۔
[1] اور ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ اس عورت نے آپ سے یہاں تک کہا:’’ کیا ہم آپ کی بات سنیں یا قرآن کی بات سنیں ۔ توآپ نے فرمایا: نہیں بلکہ کتاب اللہ کی بات سنو۔ تو اس نے یہ آیت پڑھ کرسنائی ؛ اس پر آپ نے فرمایا تھا:’’مرد نے غلطی کھائی اور عورت کی بات صحیح نکلی۔‘‘حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک عادل حکمران تھے۔آپ کی رائے یہ تھی کہ عورت کے مہر کی شریعت میں مقدار مقرر ہونی چاہیے آپ کا نکتہ نظر یہ تھا کہ زیادہ مہر شرعی کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے۔ سعید بن منصور، رقم: ۵۹۵۔ ۵۶۹۔
[2] الضعفاء الصغیر: ۳۶۸۔