کتاب: دفاع صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ اجمعین - صفحہ 30
یہ معلوم ہونا چاہیے کہ شرف دیدار ؛ جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ شرف نصیب ہوا؛ یہ صرف دیدار تک ہی محدود نہیں تھا؛کیونکہ بہت سارے کفار اور منافقین نے بھی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رخ انور کے زیارت کی تھی؛ لیکن صحابہ وہ لوگ بنے جنہوں نے ایمان لاتے ہوئے اطاعت و محبت کے ساتھ آپ کو دیکھا؛ اور پھر اپنی دوستی اور دشمنی کامعیار آپ کی محبت کو بنا لیا۔ اس بنا پر یہ لوگ اس بات کے مستحق تھے کہ اس شرف گراں مایہ سے انہیں باریاب کیا جائے اور ایسے ہوتا بھی کیوں نہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات اور دیدار میں وہ خیر و برکت اور نور ہے جس کا انکار صرف وہی انسان کرسکتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نور بصیرت سے محروم کردیا ہو۔[1]
[1] منہاج السنۃ ۸؍۳۸۸۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ ہمارے دور کے جو بعض گھٹیا قسم کے اہل بدعت لمبا عرصہ صحبت نہ ہونے کی وجہ سے صحابیت کی نفی کرتے ہیں تاکہ اپنے بغض و حسد اور باطن کی گندگی کی وجہ سے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس شرف کو دور رکھیں ؛ یہ نظریہ جادہ حق سے کھلا ہوا انحراف اور نصوص کتاب و سنت سے واضح سرکشی ہے۔ جس میں اہل ایمان کے منہج کو ترک کرتے ہوئے سلف صالحین پر تعدی و سرکشی کی گئی ہے؛اور ان کے عقیدہ و ایمان کا انکار ہے۔ اللہ تعالیٰ اس بری راہ سے ہر اہل سنت کو محفوظ رکھے۔ سلف ِ صالحین کے اقوال صحابہ کرام سے محبت اور ان سے دوستی کے بارے میں مشہور ہیں ۔ ان میں سے: وہ روایات بھی ہیں جنہیں امام لالکائی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’شرح اصول أعتقاد أہل سنت ‘‘ میں علیحدہ ابواب میں ذکر کیا ہے جن میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت واجب ہونے کی ترغیب ہے ۔ ان روایات میں سے: قبیصہ بن عقبہ سے مروی ہے ، آپ فرماتے ہیں :’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ سے محبت کرنا سنت [ایمان ] ہے۔‘‘ شرح اصول أعتقاد أہل سنۃ ۷؍ ۱۲۴۰۔ حسن [بصری] رحمہ اللہ سے پوچھا گیا : کیاابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما سے محبت کرنا سنت ہے ؟ آپ نے جواب دیا: ’’ نہیں ؛ بلکہ فرض ہے ۔‘‘ شرح اصول أعتقاد أہل سنۃ: ۷؍ ۱۲۳۹۔ حضرت مسروق رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی محبت اور ان کے فضائل سے معرفت ایمان کا حصہ ہے ۔‘‘ شرح اصول أعتقاد أہل سنۃ: ۷؍ ۱۲۳۹۔ حضرت ایوب سختیانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ جس نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے محبت کی اس نے دین قائم کردیا؛ اور جس نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے محبت کی اس کے لیے راہ[ہدایت ] واضح ہوگئی اور جس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے محبت کی ؛ وہ دین کے نور سے چمک اٹھا ؛ اور جس نے حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ سے محبت کی ،اس نے مضبوط رسی کو پکڑ لیا ، اور جس نے کہا : بھلائی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم میں ہے ، وہ انسان نفاق سے بری ہوگیا ۔‘‘ شرح اصول أعتقاد أہل سنۃ: ۷؍ ۱۲۴۳۔ ہمیں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے استغفار ہی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔جو کوئی ان کوگالی دے ‘یا ان کی شان میں گستاخی کرے ؛ یا ان میں سے کسی ایک کی شان میں گستاخی کرے ‘ وہ سنت پر نہیں ہے ۔ او رنہ ہی اس کا مال ِ فے میں کوئی حق ہے ۔‘‘ أصول السنۃ أمام أبو بکر الحمیدی ص: ۴۳۔ امام ابن رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’تمام اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے مراتب اور منازل کے مطابق درجہ بدرجہ محبت کی جائے گی۔ جیسے اھل بدر ‘ حدیبیہ ‘ بیعت ِ رضوان اور أصحابِ اُحد ۔ یہ اعلی فضائل والے لوگ ہیں اور ان کی منزلت اونچی ہے۔ جن کو ہر میدان میں سبقت حاصل ہے ۔ اللہ ان سب پر رحم کرے ۔‘‘ (الإبانہ الصغری ص: ۲۷۱)