کتاب: دفاع صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ اجمعین - صفحہ 286
ردّ:....یہ روایت منقطع ہے۔ اس لیے کہ اسلم نامی راوی ارسال کے مرض کا شکار ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اس کی احادیث منقطع ہیں ۔ جیسا کہ حافظ ابن حجر نے تصریح کی ہے۔[1]
علامہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی یہی بات کہی ہے۔‘‘[2]
دوسری بات یہ ہے کہ اس میں ان کے قول کا ابطال ہے، جو کہتے ہیں کہ گھر جلا دیاتھا۔ حالانکہ اس روایت کے بقول انہوں نے صرف گھر جلانے کی دھمکی دی تھی اور اس عقیدہ وقول پر بھی ردّ ہے جس میں کہتے ہیں کہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت نہیں کی تھی۔ کیونکہ روایت کہتی ہے کہ وہ اس وقت تک حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس واپس نہیں گئے جب تک انہوں نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت نہ کرلی۔
ایک دوسری روایت میں ہے، ہم سے جریر نے حدیث بیان کی ، وہ مغیرہ سے اور وہ زباد بن کلیت سے روایت کرتا ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر گئے، وہاں پر طلحہ و زبیر اور دیگر کچھ مہاجرین موجود تھے۔ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! میں تم پر اس گھر کو آگ لگادوں گا، یا تم نکل کر بیعت کر لو۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ ننگی تلوار لیے ہوئے نکلے۔ مگر انہیں پکڑ لیا گیا، تلوار ان کے ہاتھ سے گرگئی اور انہوں نے چھلانگیں لگا کر انہیں گرفتار کر لیا۔‘‘[3]
[1] التقریب: ۲۱۱۷۔ مؤلف نے جو حوالہ دیا ہے وہ زید بن اسلم کا ہے نہ کہ اسلم کا۔ زید بن اسلم مرسل بیان کرتا ہے ، اسلم کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ایسا کچھ نہیں فرمایا۔ بہر حال یہ روایت کم از کم حسن درجے سے نہیں گرتی۔ اس روایت سے معلوم ہوا کہ سیّدنا علیا ور زبیر رضی اللہ عنہما نے وفاتِ نبوی کے ایک دو دن بعد ہی سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی تھی اور ایک دو دن تک بیعت مؤخر کرنا بھی کسی خاص وجہ سے نہیں تھا بس۔ انھیں اس بات کا دُکھ تھا کہ سقیفہ بنی ساعدہ کے موقع پر ہم سے مشورہ کیوں نہیں لیا گیا۔ شیطان اسی چیز کو ہوا دینا چاہتا تھا جسے عمر رضی اللہ عنہ کے اس اقدام نے خاک میں ملا دیا۔ اس سے کوئی ہر گز یہ نہ سمجھے کہ عمر رضی اللہ عنہ کو اہل بیت سے بغض تھا اور وہ ان کا گھر جلانا چاہتے تھے۔ اگر ایسی بات ہوتی تو اہل بیت کی طرف سے ضرور کوئی نہ کوئی ردّ عمل سامنے آتا۔ خاتون جنت اپنا ردّ عمل دکھاتیں یا شیر خدا سیّدنا علی یا زبیر رضی اللہ عنہما کوئی نہ کوئی ردّ عمل دکھاتے۔ اگر سیّدنا صدیق کی خلافت باطل تھی یا عمر رضی اللہ عنہ کا یہ اقدام بغض اہل بیت کی وجہ سے تھا تو یہ بزرگ ضرور اس پر ردّ عمل ظاہر کرتے۔ کیونکہ ان کے پاس موقع بھی تھا اور یہ بہادر بھی تھے۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ تو خود فرما رہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اہل بیت سے بڑھ کر ہمیں کوئی محبوب نہیں ۔ افسوس کہ بعض الناس کو فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا نظر نہیں آتا۔ دراصل سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ یہ سمجھتے تھے کہ علی و زبیر رضی اللہ عنہما جیسی عظیم ہستیوں کا بلا وجہ بیعت کو مؤخر کرنا اور یوں سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر اکٹھا ہونا کسی بڑی پریشانی کا پیش خیمہ نہ ثابت ہو۔ اس لیے آپ نے یہ سخت اقدام اُٹھایا جو کہ اجتہادی اور جذباتی تھا جس کا فائدہ بہرحال ہوا کہ ان بزرگوں نے بھی مجمع عام میں سیّدنا صدیق رضی اللہ عنہ بیعت کر لی۔ اب اگر بعد میں آنے والے اس بات کو آڑ بنا کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر طعن و تشنیع کریں یا اہل بیت کی حمایت کے نام پر اُن پاک ہستیوں پر سب و شتم کریں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اہل بیت اطہار رضی الله عنہم اور سیّدنا علی و زبیر رضی اللہ عنہما نے مجمع عام میں جب خود بیعت کر لی تو بعد میں آنے والوں کے لیے بغض و عداوت کی گنجائش ہی نہیں نکلتی۔ فافہم ۔
[2] ازالۃ الدہش: ۳۷۶ معجم اسامی الرواۃ الذین ترجم لہم الالبانی:۲؍۷۲
[3] تاریخ الطبری ۲؍۲۳۳۔