کتاب: دفاع صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ اجمعین - صفحہ 28
امام بخاری رحمہ اللہ صحیح البخاری میں فرماتے ہیں :
’’جس نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں کچھ وقت گزارا ہو ؛ یا صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہو‘ وہ آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ہے۔‘‘[1]
لغت کے اعتبار سے صحبت کا یہ معنی متفق علیہ ہے۔اس لیے کہ اس میں کسی ایک چیز کا دوسری چیز سے مقارنہ کرنے اور اس کے قریب لانے کا معنی لیا جاتا ہے۔
علامہ ابن فارس کہتے ہیں :’’صاد، حاء اور باء اصل میں ایک ہے جو کسی چیز کے مقارنہ اور مقابلہ پر دلالت کرتے ہیں ۔ اسی سے صاحب کا لفظ نکلا ہے۔‘‘[2]
اس معنی کے اعتبار سے اس کی کوئی حد متعین نہیں اور نہ ہی صحابیت کے ثبوت کے لیے لمبے عرصہ تک ساتھ رہنا کوئی شرط ہے۔ اس معنی کے درست ہونے کی گواہی کئی ایک نصوص سے بھی ملتی ہے۔ مثلاً فرمان الٰہی ہے:
﴿ فَأَنْجَيْنَاهُ وَأَصْحَابَ السَّفِينَةِ ﴾ (العنکبوت :۱۵)
’’پھر ہم نے اسے بچالیا اور کشتی والوں کو بھی ۔‘‘
فرمان الٰہی ہے:
﴿ كَمَا لَعَنَّا أَصْحَابَ السَّبْتِ﴾ (النساء:۴۷)
’’جیسا کہ ہم نے ہفتہ کے دن والوں پر لعنت کی۔‘‘
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:
((إِنَّکُنَّ صَوَاحِبُ یُوْسُفَ۔))[3]
’’بیشک تم یوسف علیہ السلام والی عورتوں کی طرح ہو۔‘‘
ان دلائل کی روشنی میں ثابت ہوا کہ ’’صحبت ‘‘ اسم جنس ہے؛جس کا اطلاق تھوڑے یا زیادہ عرصہ کی مدت پر ہوتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ فلاں نے ایک گھنٹہ کی صحبت پائی؛ فلاں نے ایک سال یا ایک مہینہ کی صحبت پائی۔ [4]
اس سے بھی زیادہ واضح دلیل کہ جو کوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کچھ معمولی عرصہ بھی رہا؛ یا صرف ایمان کی حالت میں آپ کو دیکھا؛ وہ بھی صحابی ہے؛ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث مبارک ہے ‘جس میں آپ
[1] امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ باب باندھا ہے: ’’الباب الأول من کتاب فضائل الصحابۃ ۳؍۵۔ اس کے الفاظ یہ ہیں : باب فضائل اصحاب النبي صلي ا للّٰه عليه وسلم ومن صحب النبي صلي ا للّٰه عليه وسلم أو راٰہ من المسلمین فہو من أصحابہ۔
[2] معجم مقاییس اللغۃ لابن الفارس ۵۸۷۔
[3] البخاری (۶۶۴) ومسلم (۴۱۸)۔
[4] منہاج السنۃ ۸؍۳۸۸۔