کتاب: دفاع صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ اجمعین - صفحہ 24
کتابیں لیتا ہے۔ اس کے ساتھی میرے والد صاحب کے ساتھیوں سے چھپتے پھرتے تھے۔وہ چھپ چھپ کر اباجی کے ساتھیوں سے کتابیں لیتے اور انہیں مغیرہ بن سعید تک پہنچاتے۔ وہ ان میں کفر اور زندیقیت کی ملاوٹ کرتا اور انہیں ابا جی کی طرف منسوب کرکے اپنے ساتھیوں کو دے دیتا اور ساتھ ہی انہیں یہ حکم بھی دیتا کہ ان کتابوں کو شیعہ میں پھیلائیں ۔ میرے والد صاحب کی کتابوں میں غلو کی جتنی بھی باتیں پائی جاتی ہیں وہی ہیں جو مغیرہ بن سعید نے اپنی کتابوں میں شامل کی ہیں ۔‘‘[1]
اہل علم کا اتفاق ہے کہ موضوع حدیث کو نقل کرنا حرام ہے اس لیے کہ ایسا کرنا گناہ پر تعاون اور برائی وفحاشی کی اشاعت اور مسلمانوں کو گمراہ کرنا ہے اورجو کوئی ضعیف حدیث یا ایسی مشکوک حدیث بیان کرنا چاہتا ہو جس کی سند کے صحیح ہونے میں کلام ہو تو اسے چاہیے کہ وہ یوں کہے : روایت کیا گیا ہے یا ہم تک یہ بات پہنچی ہے، یا ایسے وارد ہوا ہے، یا ایسے بیان کیا گیا ہے، یا اس طرح کے الفاظ میں بیان کرے جن سے اس کے ضعیف ہونے کا پتہ چل جائے۔ ایسے یقینی اور جزم کے الفاظ کے ساتھ نہ بیان کرے جن سے پتہ چلتا ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہی فرمایا ہے اور اگر سند کے ساتھ متن بیان کرے تو پھر اس پر حدیث کا حال [حکم] بیان کرنا واجب نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ اس نے وہ چیز بیان کردی ہے جو اہل علم کے ہاں معتبر ہے۔‘‘ [2]
اس میں کوئی شک و شبہ والی بات نہیں کہ ان کا یہ کہنا کہ :(روایت کو سند کے ساتھ بیان کرنا اس کا حکم یا حال بیان کرنے سے مستغنی کردیتا ہے)یہ ایک حد تک درست ہے۔ اس لیے کہ مسلمانوں کی بہت ساری کتابیں اسناد کے ساتھ موضوع روایات سے بھری پڑی ہیں ۔ لیکن اس میں کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ ہمیں اس بات کا علم ہے کہ پرانے دور کے ہمارے علماء مختلف مراحل تدوین و تالیف سے گزرے ہیں ۔ پہلے انہوں نے جمع کا کام کیا، جو کچھ سنتے تھے اسے ایک جگہ پر اکٹھا کر لیتے تھے۔اور پھر آخری مرحلہ ان کی تحقیق کا ہوتا تھا تاکہ جھاگ اور مکھن میں فرق ہوجائے [دودھ کادودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔ ]اور ان میں سے بہت سارے علماء نے صرف پہلے مرحلہ پر اکتفاء کیا ہے۔ یعنی انہوں نے جو کچھ سنا اسے جمع کردیا۔ اس لیے
[1] تحف العقول لابن شعبۃ الحراني ۳۱۰؛ بحار الأنوار ۲؍۲۵۰۔ رسائل في درایۃ الحدیث از بابلی ۱۴۳؛ أصول الحدیث از عبدالہادي الفضلي ۱۴۳؛ اختیار معرفۃ الرجال ۲؍۴۹۱۔ معجم رجال الحدیث للخوئي ۱۹؍۳۰۰۔
[2] مقباس الہدایۃ ۱؍۴۱۷۔دراسات في علم الدرایۃ لعلي أکبر غفاري ۷۷۔ الرعایۃ في علم الدرایۃ للشہید الثاني ۱۶۵۔ رسائل في درایۃ الحدیث لابي الفضل حافظیان البابلي ۱؍۲۱۰۔