کتاب: دفاع صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ اجمعین - صفحہ 23
سے حدیث بیان کرتا ہوں وہ میرے ہاں سے ابھی نکلتا نہیں کہ وہ اس کی ایسی تاویل کرنے لگ جاتا ہے جو تاویل ہم نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ ہماری احادیث حاصل کرکے اللہ تعالیٰ کے ہاں سے اجر وثواب نہیں حاصل کرنا چاہتے۔بلکہ ان کا مقصود دنیا ہوتی ہے اور ان میں سے ہر ایک چاہتا ہے کہ وہی بڑا سردار بن جائے۔‘‘[1]
اور آپ نے یہ بھی فرمایا ہے:
’’ ہماری احادیث کواس وقت تک ہم سے قبول نہ کرو جب تک وہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کے موافق نہ ہوں یا ان کے ساتھ ہماری پہلی احادیث میں سے کوئی شہادت نہ مل جائے۔ بے شک مغیرہ بن سعید نے میرے والد محترم کی کتابوں میں ایسی روایات ٹھونس دی ہیں جو کہ والد محترم نے روایت ہی نہیں کیں ۔ پس اللہ تعالیٰ سے ڈر کر رہو اور ہمارے بارے میں کوئی روایت اس وقت تک قبول نہ کرو جب تک وہ ہمارے رب کے قول اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے موافق نہ ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب ہم حدیث بیان کرتے ہیں تو کہتے ہیں : ’’ اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا ہے ۔‘‘ [2]
یونس بن عبدالرحمن سے روایت ہے،کہتے ہیں : ’’ میں عراق گیا وہاں پر مجھے ابو عبداللہ اور ابو جعفر کے ساتھیوں کی ایک بڑی جماعت ملی میں نے ان سے سنا اور ان کی کتابوں سے علم اخذ کیا۔اور اس کے بعد یہ تمام علم ابو الحسن پر پیش کیا ۔انہوں نے اس میں سے کئی احادیث کا انکار کیا کہ یہ ابو عبداللہ سے مروی نہیں ہیں اور فرمایا:’’ ابو الخطاب نے ابو عبداللہ پر جھوٹ بولا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو ابو خطاب پر اور ایسے ہی اس کے ساتھیوں پر بھی لعنت ہو۔ وہ آج کے دن تک اپنی طرف سے احادیث گھڑ کر ابو عبداللہ کی کتب میں شامل کرتے رہے ہیں پس ہم سے کوئی روایت قرآن کے خلاف مت قبول کرو۔‘‘[3]
اور انہی سے یہ روایت بھی ہے، فرماتے ہیں : میں نے ابو عبداللہ علیہ السلام سے سنا، آپ فرما رہے تھے:
’’مغیرہ بن سعید جان بوجھ کر میرے والد صاحب پر جھوٹ بولتا ہے۔اور اپنے ساتھیوں کی
[1] بحار الأنوار:۲؍۲۴۶؛ جامع أحادیث الشیعۃ للبروجردي: ۱؍۲۲۶؛ فرائد الأصول للأنصاري: ۱؍۳۲۶؛ تاریخ آل زرارۃ: ۵۱؛ اختیار معرفۃ الرجال للطوسی: ۱؍۳۴۷؛ اعیان الشیعۃ: ۷؍۴۸۔
[2] مستدرک الوسائل للمیرزا النوری: ۱۰؍۴۸؛ بحار الأنوار: ۲؍۲۵۰؛ جامع أحادیث الشیعۃ: ۱؍۲۶۲ ۔رسائل في درایۃ الحدیث للبابلي: ۲؍۲۳۷۔أصول الحدیث عبد الہادي الفضلي: ۱۴۷۔
[3] رجال الکشی: ۱۹۵؛ بحار الأنوار:۲؍۲۵۰؛ خاتمۃ المستدرک: ۴؍۱۷۷؛ اختیار معرفۃ الرجال ۲؍۴۹۰۔