کتاب: دفاع صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ اجمعین - صفحہ 211
جرأت کر کے امام بخاری اور امام مسلم رحمہ اللہ دونوں کی اسناد سے غفلت کا مظاہرہ کیا ہے، وہ سندیں یہ ہیں :
صحیح البخاری: عن ابی معمر، عن عبدالوارث عن عبدالعزیز عن انس۔
صحیح مسلم: عن محمد بن المثنی و ہارون بن عبداللّٰہ بن عبدالصمد عن ابیہ عن عبدالعزیز عن انس۔
پھر کہتا ہے: یہ تو ہوا، اب خواہ انس سے اسناد صحت کے ساتھ ثابت ہوں یا نہ ہوں ، یہاں پر کلام تو انس رضی اللہ عنہ کی شخصیت پر ہے۔ سب سے پہلی بات :پہلی روایت میں اس کا جھوٹ بھرا ہواہے اور یہ بات اس بھنے ہوئے پرندہ والی روایت سے ظاہر ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ آ جائیں ۔ (اس پوری حدیث کو بیان کرتے ہوئے انس کے جھوٹ کا نقطہ ہم پر واضح ہو جائے گا)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے آنے کا انتظار کر رہے تھے، وہ جب بھی آتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں تو حضرت انس کہتے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کام میں مصروف ہیں ....حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہوئے اور پوچھا: اے انس! تم نے ایسے کیوں کیا ؟ .... الخ[1]
جہاں تک بھنے ہوئے پرندے والی حدیث کا تعلق ہے، تو چاہیے تو یہ تھا کہ اس حدیث کو علی الاطلاق قبول نہ کیا جائے جبکہ اس نے اس کی اسانید پر تنقید کرنے کے بعد بھی روایت کو صرف اس لیے قبول کیا ہے تاکہ اس کے دل کو تسلی ہو جائے۔ اس پر مزیدیہ کہ متن پر ایک نظر ڈالنے سے سند میں بحث کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی تھی۔ اس لیے کہ اس روایت میں ہے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی تھی۔
[1] المستدرک ۳؍ ۱۳۰۔ منہاج السنۃمیں ابن تیمیہ نے ابن مطہر حلی کے حوالہ سے یہ روایت رد کرتے ہوئے نقل کی ہے۔ روایت یوں ہے:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک پرندہ لایا گیا، تو آپ نے دعا کی :’’ اے اﷲ! اس پرندے کا گوشت کھانے کے لیے کسی ایسے شخص کو میرے پاس بھیج جو مجھے اور تجھے سب لوگوں میں سے عزیز تر ہو۔ اتنے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور دروازے پر دستک دی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی ضرورت میں مشغول ہیں ۔ پس آپ واپس چلے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پہلے کی طرح دعا کی؛ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی۔ حضرت انس نے پھر کہا: کیا میں نے نہیں کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی ضرورت میں مشغول ہیں ۔ آپ پھر واپس آئے اور پہلے دو بار کی نسبت بہت سخت دستک دی۔ اس دستک کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن لیااور فرمایا: اسے اندر آنے کی اجازت دو۔ جب آپ اندر تشریف لائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم نے اتنی دیر کیوں لگادی ؟ تو انہوں نے عرض کیا : میں ایک بار آیا تو مجھے انس نے واپس کردیا ‘ پھر دوسری بار آیا تو انس نے واپس کردیا۔ پھر میں تیسری بار آیا تو انس نے واپس کردیا۔ آپ نے پوچھا : اے انس! تم نے ایسے کیوں کیا ؟ تو انہوں نے عرض کی : میں یہ امید کرتا تھا کہ یہ دعا انصار کے کسی فرد کے لیے ہو۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے انس! کیا انصار میں علی سے بہتر بھی کوئی ہے ؟ یا انصار میں علی سے افضل بھی کوئی ہے۔