کتاب: دفاع صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ اجمعین - صفحہ 114
شرعی اصطلاح میں معنی:.... ’’صحابی وہ ہے جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمان کی حالت میں ملاقات کی ہو اور اسی پر اس کی موت واقع ہوئی ہو۔‘‘ [1]
پس جب یہ معلوم ہوگیاتو اب بات احادیث حوض میں ہوگی۔ احادیث حوض کے درست ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ اسے کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے روایت کیا ہے اور ان احادیث کی تفصیل و تشریح میں علمائے کرام رحمہم اللہ کے کئی اقوال ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ان سے مراد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نہیں ہیں ۔ کیونکہ:
٭کیا یہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی ایسی قوم سے راضی ہوجائیں اور ان کی حمد و ثناء بیان کریں اور تورات و انجیل میں ان کی مثالیں بیان کریں جن کے بارے میں اسے معلوم ہو کہ یہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اپنی ایڑیوں کے بل الٹے پھرجائیں گے؟ یہ بات صرف وہی انسان کہہ سکتا ہے جس کا یہ عقیدہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کو پہلے سے اس بات کا پتہ نہیں تھا۔ تو ایسا انسان سب سے برااور بڑا کافر ہے۔
٭صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کوئی ایک بھی مرتد نہیں ہوا۔ بلکہ یہ عرب بدو تھے جو کہ مرتد ہوئے۔ جن کا دین کی نصرت میں کوئی کردار نہیں تھا۔ ان کی وجہ سے مشہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر قدح نہیں کی جاسکتی۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میں کہوں گا:’’أصیحابی۔‘‘ یہ لفظ قلت عدد پر دلالت کرتا ہے۔‘‘[2]
[1] الإصابۃ في تمییز الصحابۃ ۱؍۱۶)۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ((فأما الصحابۃ رضی اللہ عنہم فہم کل من جالس النبی صلي ا للّٰه عليه وسلم و لو ساعۃ ، وسمع منہ ولو کلمۃ فما فوقہا أو شاہد منہ علیہ السلام أمرا یعیہ۔)) [الإحکام فی أصول الأحکام لابن حزم۵؍۸۶]۔ ’’صحابہ میں وہ شامل ہیں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ مجلس کی ہو بھلے وہ ایک گھڑی کے لیے ہو، اور آپ سے بھلے ایک کلمہ یا اس سے زیادہ سنا ہو؛یا آپ کو کوئی کام کرتے دیکھا ہو اور اسے یاد رکھ لیا ہو۔‘‘
قاضی ابوبکر محمد بن الطیب رحمہ اللہ کا قول ہے کہ باتفاق اہل لغت صحابی صحبت سے مشتق ہے ۔ مگر صحبت کی کسی مخصوص مقدار سے مشتق نہیں بلکہ اس کا اطلاق ہر اس شخص پر ہوسکتا ہے جس نے کم و زیادہ کسی کی صحبت اٹھائی ہو۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ ایک سال ایک مہینہ یا ایک دن یا ایک گھڑی تک ایک شخص کی صحبت اٹھائی، اس لیے صحبت کی تھوڑی یا زیادہ مقدار دونوں پر صحبت کا اطلاق ہوسکتا ہے، لیکن اس کے ساتھ عرفاً صحابی صرف اس شخص کو کہہ سکتے ہیں جس نے کسی کی طویل صحبت اٹھائی ہو، عرفاً اس شخص کو صحابی نہیں کہہ سکتے جس نے کسی سے ایک گھنٹہ کی ملاقات کی ہویا اس کے ساتھ چند قدم چلا ہویا اس سے کوئی حدیث سنی ہو۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے دور کے جو بعض گھٹیا قسم کے اہل بدعت لمبا عرصہ صحبت نہ ہونے کی وجہ سے صحابیت کی نفی کرتے ہیں تاکہ اپنے بغض و حسد اور باطن کی گندگی کی وجہ سے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس شرف کو دور رکھیں یہ نظریہ جادہ حق سے کھلا ہوا انحراف اور نصوص کتاب و سنت سے واضح سرکشی ہے۔
[2] اصیحابی کے یہ الفاظ خود امامیہ کی کتابوں میں بھی موجود ہیں ؛ دیکھیں : بحار الأنوار ۸؍۲۷؛ ۲۸؍۲۲؛ ۲۹؍۵۶۶۔ العدد القویۃ لعلي بن یوسف الحلي ص ۱۹۸۔ تقریب المعارف لأبي الصلاح الحلبي ۳۹۵۔ شرح إحقاق الحق ۱۸؍۳۷۔