کتاب: دفاع صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ اجمعین - صفحہ 107
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے شعلہ کے بارے میں فرمایا: ’’اس سے حیرہ کے محلات اور کسری کے مدائین روشن ہوگئے ہیں اور حضرت جبریل نے مجھے خبر دی کہ میری امت ان علاقوں پر غالب آئے گی۔‘‘ پھر جب دوسری ضرب ماری تو اس سے بجلی کا شعلہ سا نکلا جسے تم لوگوں نے بھی دیکھا، اس سے ارض روم کے محلات روشن ہوگئے ۔تو جبریل امین نے مجھے خبر دی کہ آپ کی امت ان علاقوں کو فتح کرے گی تمہیں اس کی خوشخبری ہو۔‘‘ تومسلمان اس پر بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے: تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے اس محاصرہ اور گھیراؤ کے بعد ہمارے لیے فتح و نصرت رکھی ہے۔‘‘ جب کہ منافقین کہنے لگے: تمہیں اس بات پر تعجب نہیں ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں امیدیں دلاتے ہیں اور باطل وعدے کرتے ہیں اور تمہیں یہ بتاتے ہیں کہ وہ یہاں یثرب سے حیرہ اور کسری کے محلات دیکھ رہے ہیں اور یہ کہ تمہیں ان علاقوں میں فتح دی جائے گی اور تمہاری حالت یہ ہے کہ خوف کے مارے خندق کھود رہے ہو اور دشمن سے براہ راست مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔تو اس موقع پر قرآن نازل ہوا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَإِذْ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ مَا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُورًا﴾[الأحزاب: ۱۲] ’’ اور جب منافق اور بیمار دل کہنے لگے کہ اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے صرف دھوکا کا وعدہ کیا تھا۔ ‘‘[1]
[1] مجمع البیان ۲؍۲۷۰۔ بحار الأنوار ۱۷؍۱۶۹۔ نفس الرحمن في فضائل سلمان ۱۴۸۔ الصحیح من سیرۃ النبی الأعظم۹؍۱۴۰۔ غور کیجیے کہ اس وقت مسلمانوں کے ایمان اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر پر پورے یقین کا کیسا امتحان تھا کہ ہر طرف سے کفار کے نرغہ اور خطرے میں ہیں ، خندق کھودنے کے لئے مزدور اور خادم نہیں ، خود ہی ایسی حالت میں محنت برداشت کر رہے ہیں کہ سخت سردی نے سب کو پریشان کر رکھا ہے۔ ہر طرف خوف ہی خوف ہے۔ بظاہر اسباب اپنے بچاؤ اور بقا پر یقین کرنا بھی آسان نہیں ، دنیا کی عظیم سلطنت روم وکسری کی فتوحات کی خوش خبری پر یقین کس طرح ہو؟ مگر ایمان کی قیمت سب اعمال سے زیادہ اسی وجہ سے ہے کہ اسباب وحالات کے سراسر خلاف ہونے کے وقت بھی انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد میں کوئی شک وشبہ پیدا نہ ہوا۔ایسے جاں نثار خادم تھے جو کسی حال میں یہ نہ چاہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اس مزدور کی محنت شاقہ میں ان کے شریک ہوں ۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کی دل جوئی اور امت کی تعلیم کے لئے اس محنت و مزدوری میں برابر کا حصہ لیا۔ صحابہ کرام کی جانثاری، آپ کے اوصاف کمال اور نبوت و رسالت کی بنیاد پر تو تھی ہی، مگر ظاہر اسباب میں ایک بڑا سبب یہ بھی تھا کہ ہر محنت و مشقت اور تنگی و تکلیف میں آپ سب عوام کی طرح ان میں شریک ہوتے تھے۔ حاکم و محکوم، بادشاہ و رعیت اور صاحب اقتدار عوام کی تفریق کا کوئی تصور وہاں نہ پیدا ہوتا اور جب سے اہل اسلام نے اس سنت کو ترک کیا اس وقت سے یہ تفرقے پھوٹے، اور طرح طرح کے فتنے اپنے دامن میں لائے۔