کتاب: دینی تعلیم و تربیت کے اصول و آداب - صفحہ 99
کیا۔نیز تصنیف و تالیف کا ایک بڑا مرکز قائم کیا،جہاں سے رسالہ ’’التوعیۃ‘‘ شائع ہوتا ہے،جن کے گہر بارمضامین میں ایک گراں قدر مضمون ابن احمد نقوی کا ہوتا ہے،ان کے پراز معلومات مقالے کو ناظرین کرام بڑی دلچسپی سے پڑھتے اور مستفید ہوتے ہیں۔ مولانا عبدالحمید صاحب رحمانی سے موصوف مکرم نے اپنا رشتۂ وفاباندھ رکھا ہے،انھوں نے اس کے اس موقر جریدہ ’’التوعیہ‘‘ میں اپنے سحر انگیز اثر آفریں معلومات سے بھرپور مضامین شائع کرائے اور یہ علمی و ادبی ماہنامہ مولانا عبدالحمید رحمانی کے اشراف ہی میں نکلتا ہے۔اﷲ تعالیٰ نے مولانا عبدالحمید صاحب رحمانی کو یہ طاقت دی کہ ایک چار منزلہ عالی شان خوب صورت مسجد ایک کروڑ پندرہ لاکھ میں تعمیر کرائی،جو تعمیر کی آخری منزل میں ہے۔ حال ہی میں ریاض کے مشائخ کبار کی بدولت ’’تدریب المعلمین‘‘ کا اپنے ہاں اہتمام کیا تھا جو بہت ہی کامیاب رہا۔کافی علما شریک رہے اور ان علمائے مدعوین کے قیام و طعام وغیرہ کا آپ کی جانب سے بڑا اچھا انتظام و انصرام رہا۔تمام علمی برادری مولانا کے اس عظیم کارنامے پر فخر و ناز کرتی ہے اور مولانا محترم کو دادِ تحسین دیتی ہے۔ مولانا کے مکہ مکرمہ اور ریاض وغیرہ کے بڑے بڑے مشایخ سے اچھے اور گہرے تعلقات ہیں۔آپ چونکہ عربی زبان بولنے پر بھی اچھی قدرت رکھتے ہیں اور اچھا خطاب بھی کر لیتے ہیں،علمی مباحث پر دقیق نظر رکھتے ہیں،اس لیے سعودیہ میں خوب متعارف ہیں۔مملکتِ سعودیہ کے مشایخ کبار و محسنینِ عظام کی