کتاب: دینی تعلیم و تربیت کے اصول و آداب - صفحہ 97
تقریریں حاضرین کو پسند آجائیں،جس سے رحمانیہ کے علمی وقار و عزت میں اضافہ و شہرت ہو۔ جب میری تقریر ہوئی تو مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہ اللہ نے میرا تعارف کروایا اور دارالحدیث رحمانیہ کا ذکرِ خیر کیا۔جب جلسے سے فارغ ہو کر آخری دن میں مولانا امرتسری رحمہ اللہ کے کمرے کے سامنے بڑے برآمدے میں بیٹھا ہوا تھا تو کلکتہ کے امرا و تجار صاحبان نے مولانا کی خدمت میں ایسے ایسے ہدایا اور تحائف لا لا کر پیش کیے کہ میں حیرت زدہ رہ گیا۔مولانا کے الفاظ اب تک میرے کانوں میں گونج رہے ہیں کہ بھائی اتنے تحائف کیوں لاتے ہو؟ میں انھیں اپنے ساتھ کیسے لے جاؤں گا؟ اس پر ان حضرات نے جو جواب دیا ان کا وہ جواب بھی مجھے یاد ہے کہ ’’حضور!آپ بے فکر رہیں،مال گاڑی کے ایک ڈبے میں سیدھے امرتسر جانے کے لیے بک کرا دیا جائے گا جو امرتسر ہی جا کر رکے گی۔‘‘ مولانا نے فرمایا:اب تحائف کا لانا بند کرو،اب کوئی تحفہ نہ لائے،پھر مولانا کے فضل و کرم کا تماشا میں نے دیکھا کہ انھوں نے اپنے رفقا اور معتمدین سے فرمایا:وہ قالین لاؤ جو مجھے ابھی دی گئی ہے،اس پر مولانا ابو القاسم سیف بنارسی صاحب کا نام لکھ دو اور وہ مصلیٰ لاؤ،مولانا منیر صاحب کو دے دو۔وغیر ذلک حضرت العلام مولانا نے تمام مذاہب و ملل پر سیکڑوں سے زیادہ کتابیں لکھیں اور سیکڑوں سے زیادہ کامیاب مناظرے کیے۔ہزار بار علمی جلسوں اور بڑے بڑے مرکزی اداروں میں بے تکلف شریک ہوئے اورہر جگہ شیرِ پنجاب