کتاب: دینی تعلیم و تربیت کے اصول و آداب - صفحہ 95
میں ضائع کر دیتے ہیں۔ مولانا امرتسری رحمہ اللہ کی ذہانت و فقاہت کا ایک مشاہدہ میں جس زمانے میں دارالحدیث رحمانیہ دہلی میں پڑھتا تھا،وہ میرا آخری سال تھا۔اس زمانے میں اخبار و رسائل جو مدرسے میں آتے تھے،اس میں ’’تنظیم اہلِ حدیث‘‘ روپڑ بھی آرہا تھا۔مولانا عبداﷲ صاحب روپڑی رحمہ اللہ زوجین کے تعلق کی جو تشریح کر رہے تھے اور جس انداز و زبان میں کر رہے تھے،اس کو پڑھ کر میرے دل سے یہ آواز نکلی کہ مولانا کو کیا ہوا کہ تشریحات کو کوک شاستر کے انداز میں پیش کرتے ہیں۔ایسی تعبیر و تشریح ان کی شان کے بالکل خلاف ہے،چنانچہ اسی دوران میں جمعیت تبلیغ اہلِ حدیث کلکتہ کا جلسہ ہوا،اس میں دارالحدیث رحمانیہ دہلی کی طرف سے میں منتخب کیا گیا۔اس میں میرے ساتھی مولانا عبدالغفار حسن صاحب عمر پوری بھی تھے،جو میرے ایک زندہ دل اور دانش مند دوست تھے۔ جمعیت تبلیغِ اہلِ حدیث کلکتہ کا ایک بڑا اشتہار شائع ہوا تھا،جس میں امام الہند حضرت مولانا ابوالکلام آزاد،شیخ الاسلام مولانا ثناء اﷲ صاحب امرتسری رحمہ اللہ،حضرت مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی،مولانا ابو القاسم سیف بنارسی اور عبداﷲ الکافیS وغیرہ اجلہ علما شریک تھے۔مولانا امرتسری رحمہ اللہ سے ملاقات کا شوق مجھ پر غالب تھا۔ کلکتہ کے جس عظیم شاندار محل میں ہم لوگ ٹھہرائے گئے،اسی محل میں مولانا امرتسری رحمہ اللہ کے قیام کا انتظام کیا گیا تھا۔سیڑھی پر چڑھتے ہوئے مولانا امرتسری رحمہ اللہ