کتاب: دینی تعلیم و تربیت کے اصول و آداب - صفحہ 91
تھا اور باورچی خانے میں تمام ضرورت کی چیزیں مہیا رکھتا تھا۔پیاز جیسی چیز کی بھی امام شافعی رحمہ اللہ کو کوئی زحمت نہیں اٹھانی پڑتی تھی،وہ باقاعدہ طور پر علم کے کام میں لگے رہتے۔ غریب اور کمزور عوام میں دین کے حاصل کرنے کا سچا ذوق موجود ہے۔علمِ دین کی حفاظت اور خدمت و اشاعت کے لیے یہی ہمارے غربا اور عوام رہ گئے ہیں۔امیروں اور دولت مندوں میں اسلامی ذوق ختم کیا جا رہا ہے،فارسی کے دو شعروں میں علامہ اقبال رحمہ اللہ نے اس کی ترجمانی کی ہے،وہ لکھتے ہیں: سالہا اندر جہاں گردیدہ ام نم بہ چشم منعماں کم دیدہ ام دیدہ ام صدق و صفا اندر عوام خیر و خوبی بر خواص آمد حرام ’’میں سالہا سال دنیا میں گھوما،میں نے خوش حال لوگوں کی آنکھوں میں(خدا خوفی کے) آنسو کم ہی دیکھے،میں نے عوام میں صدق و صفا دیکھا،خیر و خوبی کو خواص پر حرام دیکھا۔‘‘ علامہ اقبال رحمہ اللہ نے اس غم ناک حقیقت کی اس طرح بھی ترجما نی کی ہے: امراء نشۂ دولت میں ہیں غافل ہم سے زندہ ہے ملتِ بیضا غربا کے دم سے مفکرِ ملت علامہ اقبال رحمہ اللہ نے امرا کی دنیاوی علوم و فنون سے محبت اور علومِ اسلامیہ سے بیگانگی کے سلسلے میں ’’شکوہ‘‘ میں یہ شکایت لکھی ہے: