کتاب: دینی تعلیم و تربیت کے اصول و آداب - صفحہ 82
ساتھ ان کو قائم ہوئی۔ ایک سوال اور اس کا جواب: یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان تکلفات کی کیا ضرورت تھی؟ پانی مطبخ میں چند لکڑیاں جلا کر کیوں نہیں گرم کراتے تھے؟ اتنی تکلیف کیوں اٹھائی کہ پانی کا لوٹا اپنی گود سے لے کر لحاف اوڑھ کر بیٹھے رہتے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ لوگ ایسے صاحبِ تقویٰ تھے کہ ان کا دل گوارا نہیں کرتا تھا کہ مدرسے کے مطبخ میں ان کے لیے لکڑی جلائی جائے اور اس سے ان کا پانی گرم کیا جائے۔ اسی طرح کا واقعہ حضرت مولانا محمد یحییٰ صاحب کاندھلوی کا ہے کہ جب کوئی خادم مطبخ سے پانی گرم کر کے لے آتا تو آپ جلائی جانے والی لکڑی کی قیمت ادا کر دیتے۔(آپ بیتی مولانا محمد زکریا صاحب) یہ مثال تو متقی علمائے عظام میں نایاب نہیں ہے۔خلافتِ راشدہ میں اس طرح کے ایک دو واقعات عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے مرقوم ہیں کہ جب آپ کے لیے پانی گرم کیا جاتا اور گرم شدہ پانی آپ کے سامنے پیش ہوتا۔آپ اسے استعمال کر لیتے تو آپ اس کا دام لگاتے کہ اس پانی کے گرم کرنے میں بیت المال کی کتنی لکڑی خرچ ہوئی ہو گی؟ جو قیمت لگا دیتے،آپ اس کا دوگنا دیتے،تب آپ کو تسلی ہوتی۔ اسی طرح جب سرکاری دعوتوں میں کسی شاہی ضیافت کے موقع پر اچھا کھانا بن جاتا اور آپ کو بھی مہمانوں کے ساتھ کھانا پڑتا تو آپ اس کھانے کی پوری قیمت جوڑ کر بیت المال میں داخل کر دیتے اور کہتے:’’مجھے کیا حق ہے کہ