کتاب: دینی تعلیم و تربیت کے اصول و آداب - صفحہ 80
یہی حال ان تمام لوگوں کا ہے جو بظاہر لوگوں سے اچھی بات کرتے ہیں اور پھر ان کی برائی کرتے ہیں۔اگر آپ کے ریاکار ہونے کا شبہہ بچے کے ذہن میں آجائے گا تو وہ آپ سے بدگمانی اور بداندیشی کے بھنور میں مبتلا ہو جائے گا۔ انسانی شخصیت کی جسم میں تعلیم و تربیت کی مثال تانے بانے کی ہے،دونوں میں سے صرف ایک پر بھروسا کرے تو کپڑا نہ بن پائے گا۔دھاگے کے سوا کچھ نہ ہاتھ آئے گا۔تربیت کا کام یہ ہے کہ اصلی اور حقیقی باتوں کو بچے کے ذہن میں پیوست کیا جائے،تاکہ وہ راہِ راست پر چلے اور سوجھ بوجھ سے کام لے،باہم انسانوں کی دوستی اور غم خواری رکھے۔اگر تربیت نہ ہو تو علم بے باغ و بہار رہے گا۔تربیت میں اطوار و عادات،لباس کی سجاوٹ،لب و لہجہ کا طریقہ،اچھے طریقے سے بات چیت،نشست و برخاست میں،حسنِ رفتار میں،رعنائی و بانکپن سب چیزیں آجاتی ہیں۔تربیت میں یہ بھی داخل ہے کہ ہمارے قول و فعل سے کسی کو نقصان اور تکلیف نہ پہنچے اور کسی کا دل نہ دکھے،جیسا کہ اقبال نے اپنے ایک شعر میں لکھا ہے ع میری زبان و قلم سے کسی کا دل نہ دکھے کسی سے شکوہ نہ ہو زیرِ آسمان مجھ کو صالح تربیت کی شدید حاجت آج اساتذہ،طلبا کے سامنے سے گزرتے ہیں اور طلبہ اپنی اپنی بنچوں پر بیٹھے رہتے ہیں۔ایسے ماحول کو دیکھ کر انسان کا دل روشن ہونے کے بجائے سیاہ و تاریک ہو جاتا ہے۔ایسے طلبا میں علم و تہذیب کی روشنی منور نہیں ہوتی،بلکہ