کتاب: دینی تعلیم و تربیت کے اصول و آداب - صفحہ 71
نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ کی دین پسندی کا ایک واقعہ دہلی میں ایک بار نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ پھاٹک حبش خان میں اپنے کسی محل میں وارد ہوئے۔میاں سید نذیر حسین محدث اعظم شیخ الکل فی الکل رحمہ اللہ کو خبر ہوئی کہ نواب صاحب یہاں بھوپال سے آکر وارد ہوئے ہیں۔حضرت میاں صاحب رحمہ اللہ کو ان سے ملاقات کا اشتیاق پیدا ہوا تو حضرت میاں صاحب نواب صاحب سے ملنے کے لیے ان کے محل پر تشریف لے گئے۔ محل کے دروازے پر ایک دربان بیٹھا ہوا تھا جو اوپر جانے سے میاں صاحب کو روک رہا تھا،جیسا کہ نوابوں کی ڈیوڑھیوں اور محل سرایوں کا قاعدہ ہوتا ہے کہ ان کے دروازوں پر دربان بیٹھتے ہیں اور کسی کو اندر بلا اجازت جانے نہیں دیتے۔میاں صاحب نے دربان سے کہا:بھائی میں نذیر حسین ہوں اور نواب صاحب سے ملنے کے لیے حاضر ہوا ہوں،اندر جا کر اجازت لے آؤ۔ میاں صاحب کی یہ آواز کوٹھے پر چلی گئی،اس وقت نواب صاحب نائی کو بلا کر حجامت بنوا رہے تھے۔جب یہ آواز سنی تو نائی کو روک دیا اور جلدی جلدی سر پر پگڑی باندھ لی۔فوراً نیچے اتر آئے اور اپنی مسندِ خاص پر عزت سے بٹھایا اور کہا:مولانا آپ نے کیوں زحمت فرمائی،میں خود ہی حاضر ہونے والا تھا۔ یہ دینی و علمی تکریم کا جذبہ اور ولولہ ان کی ماں کا پیدا کیا ہوا تھا،جنھوں نے ان کے دماغ و مزاج کو شروع ہی سے دین پسند بنا دیا تھا۔بھوپال میں کتنے اہلِ علم،اہلِ فضل ان کے درِ دولت سے وابستہ تھے۔علامہ محمد بشیر سہسوانی رحمہ اللہ اور مولانا محمد علی،ابو المکارم اور مولانا سلامت اﷲ صاحب جیرا جپوری اور قاضی