کتاب: دینی تعلیم و تربیت کے اصول و آداب - صفحہ 62
پس میری زندگی پر ماں باپ اور دین دار چچا صاحبان کا بہت گہرا اثر پڑتا تھا کہ میں نے وقت کی پابندی سے مدرسے میں حاضری دی اور وقت پر پہنچ کر درس گاہ میں حاضر ہو گیا۔ آج کل کے اکثر نوزائیدہ علما کبھی بارش کا بہانہ بنا کر،کبھی دعوت کا بہانہ بنا کر گھر بیٹھ جاتے ہیں،ان کو نہ طلبا کا خیال ہے،نہ درس گاہ کا خیال ہے،نہ اوقات کے ضیاع کا خیال ہے،صرف اپنی نوکری بحال رکھنے کا خیال ہے،اب یہ مصرع پڑھتا ہوں جو تجربے کے بعد نوے برس کے سن میں پہنچ کر لکھتا ہوں ع تنِ ہمہ داغ داغ شد پنبہ کجا کجا نہم ’’تمام جسم ہی زخموں سے چور ہے،کہاں کہاں مرہم رکھوں۔‘‘ تو اکثر یہ پڑھ کر صبر کرتا ہوں کہ زمانے کی کثیف غلاظت میں عطر کہاں کہاں چھڑکوں اور دین کی خوشبو فاسد ماحول میں کہاں کہاں پھیلاؤں ؟ کسی اہلِ دل نے ایسے ہی موقع پر کہا تھا ع لَنْ یُّصْلِحَ الْعَطَّارُ مَا أَفْسَدَہُ الدَّھْرُ اﷲ تعالیٰ اپنی مشیت اور رحمتِ کاملہ سے ہم قبلہ و کعبہ بنے ہوئے علما و فضلا کی اصلاح اور تربیت فرما کر انھیں فعال اور ذمے دار انسان بنا دے کہ وہ اپنی زندگی کو سمجھ سکیں اور خود شناسی سے اپنے چھپے ہوئے نورِ ایمان کو تاباں کر سکیں۔ ڈاکٹر اقبال رحمہ اللہ نے کیا خوب کہا ہے ع اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن