کتاب: دینی تعلیم و تربیت کے اصول و آداب - صفحہ 59
اعراض کرتے ہوئے مجھ کو مردود اور تارکِ سنت اور بہت ہی لعن طعن کی باتیں کہیں۔میں ان کی باتیں سنتا ہوا افسوس کرتا ہوا گھر میں اپنی والدہ کے پاس پہنچ گیا۔میری والدہ ماجدہ اس وقت بیمار اور کمزور تھیں۔میں نے حاضر ہو کر جو کچھ تھوڑا بہت کھانا تھا،ان کی شفقت بھری محبت کی فضا میں کچھ کھا لیا اور والدہ ماجدہ سے علیک سلیک کر کے بنارس کے لیے رخصت ہوا۔ والد صاحب سے سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔کسی اور راستے سے نکل کر اسٹیشن پہنچ گیا۔ایک طالب علم اسٹیشن پر ملا۔والد صاحب کا لکھا ہوا خط جو شفقت و محبت اور زجر و تنبیہ کے مضامین پر مشتمل تھا،مجھ کو طالب علم سے ملا،اس میں لکھا تھا: ’’تم بنارس جا رہے ہو،جاؤ،تم مدرسے پر بروقت حاضری دے رہے ہو،بہت خوشی ہوئی،لیکن جو تم نے ترکِ سنت کی ہے اور ڈاڑھی کٹوا لی ہے اس سے میرا آتشِ غضب بھڑک اٹھا اور تم کو سخت لعنت ملامت کی۔تم جانتے ہو کہ میرا مزاج آتشی ہے،میں خلافِ سنت کوئی کام برداشت نہیں کر سکتا۔‘‘ اس خط کے پڑھنے کے بعد مجھے شیخ سعدی رحمہ اللہ کا ایک شعر یاد آگیا،وہ لکھتے ہیں کہ ماں باپ سختی بھی کرتے ہیں تو ان کے اندر نرمی اور شفقت بھی ہوتی ہے اور دونوں کے خلط ملط سے مزاجوں کی اصلاح ہو جاتی ہے۔وہ لکھتے ہیں ع درشتی و نرمی بہم در بہ است چوں رگزن کہ جراح مرہم نہ است ’’درشتی اور نرمی دونوں ہی بہتر ہیں،جس طرح فصد کرنے والا کہ وہ