کتاب: دینی تعلیم و تربیت کے اصول و آداب - صفحہ 54
محلے کے کچھ لوگوں نے سفارش کی کہ یہ لڑکا آٹھویں جماعت کا ہے،اس کا آخری سال ہے،دو تین مہینے میں پڑھ کر فارغ ہو جائے گا،مہربانی فرما کر اس کو داخل کر لیں،ورنہ اس کا سال خراب ہو جائے گا۔ مولانا نذیر احمد رحمانی نے فرمایا:تو کیا ناتربیت یافتہ طالب علم کو رکھ کر میں اس کو سند دے کر اس کی سند پر دستخط کروں گا کہ یہ لڑکا صحیح اعمال و اخلاق کا ہے؟ کیا میرا خون اس وقت سفید رنگ کا ہو جائے گا کہ ایسے باؤلے پن کو اختیار کروں اور اس کو سند دے دوں ؟ آخر مولانا نے اس کو خارج کر دیا اور کوئی سفارش اس راہ میں حائل نہ ہوئی۔ یہ روایت ان طلبہ سے ہم نے سنی ہے جو اس وقت مولانا مرحوم کے زیرِ تربیت تھے۔مولانا محمد حنیف صاحب(موہنکولہ،سدھارتھ نگر) اس کے راوی ہیں۔ اس تربیت گاہ سے کتنے باضمیر اور بااخلاق لوگ نکلے اور کتنوں ہی کی زبانی میں مولانا مرحوم کی اخلاقی تربیت کے واقعات سن چکا ہوں۔آج کے دور میں ایسی نظرِ تربیت رکھنے والے مدرسین اور اساتذہ پیدا ہو جائیں تو آج بھی لڑکوں کا کریکٹر اور تہذیب درست ہو سکتی ہے۔کسی شاعر کا ایک شعر ہے: فیض روح القدس ارباز مدد می فرماید دیگراں ہم بکنند آنچہ مسیحا می کرد ’’روح القدس کا فیض اگر پھر معاون و مددگار ثابت ہو،تو دوسرے لوگ بھی وہ کارنامے سرانجام دیں جو مسیحا نے دیے۔‘‘