کتاب: دینی تعلیم و تربیت کے اصول و آداب - صفحہ 45
اور خطبائے کرام کی تعلیم و تربیت سے متعلق باتیں یہاں نہیں نقل کر سکتے۔یہ مختصر رسالہ اس کا متحمل نہیں کہ ان ائمہ سلف کے تعلیم و تربیت کے اثرات اور افہام و تفہیم کے انوار و برکات یہاں نوٹ کیے جا سکیں۔ کسی صاحبِ دل عظیم مصنف اور عظیم مورخ نے اپنی کسی کتاب میں اس موضوع پر لکھا تو ہو گا،لیکن وہ میری نظر سے نہیں گزرا،البتہ اگر ہمارے مولانا صلاح الدین صاحب،جو تذکرہ نگاری اور محققانہ تالیف و تصنیف کا ذوق بدرجۂ کمال رکھتے ہیں،بلکہ عروۃ الوثقیٰ تک پہنچ چکے ہیں،وہ ایسی کسی کتاب کا نام لیں یا کسی صاحبِ علم و فضل کو اس پر تحریر کرنے کی ترغیب دیں تو ہو سکتا ہے کہ اﷲ کے بندے اس موضوع کا حق ادا کرنے کے لیے قلم اٹھائیں: ہر بیشہ گماں مبر کہ خالیست شاید کہ پلنگے خفتہ باشد ’’ہر جنگل کو خالی نہ سمجھو،شاید کہیں چیتا سویا ہوا ہو۔‘‘ ہر گلی اور کوچے میں ہر طرح کے لوگ مل جاتے ہیں۔ہو سکتا ہے کچھ مردانِ علم و فن اپنے سیر و سوانح سے واقفیت کے باعث ایسے اچھوتے موضوع کا حق ادا کر سکیں۔لعل اللّٰہ یحدث بعد ذلک أمراً۔ زمانہ حال اور زمانہ ماضی قریب کے چند واقعات تعلیم و تربیت اور تزکیۂ باطن کے متعلق ہم ایک ایک کر کے پیش کر رہے ہیں۔آج کے اساتذہ بھی اسی طرح نظر رکھیں،جو موجودہ زمانے میں دار الحدیث رحمانیہ دہلی کے اساتذہ میں تھی،وہی نظرِ شفقت،وہی نظرِ تربیت ہمارے موجودہ اساتذہ کو نصیب ہو جائے تو