کتاب: دینی تعلیم و تربیت کے اصول و آداب - صفحہ 36
’’استاد اور طبیب کا جب تک احترام نہ کیا جائے،ان سے استفادہ ناممکن ہے۔‘‘ اپنے اساتذہ کا غایت درجہ اکرام و احترام ہمارے اسلاف کا طرزِ عمل اور وتیرہ رہا ہے۔چنانچہ مفسرِ قرآن حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما اپنی جلالتِ شان کے باوجود حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی سواری کی رکاب تھام لیتے اور فرماتے: ’’ھَکَذَا أُمِرْنَا أَنْ نَفْعَلَ بِعُلَمَائِنَا‘‘ ’’ہمیں اسی طرح اپنے علما کا احترام کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔‘‘ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اپنے استاد الاحمر رحمہ اللہ کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھتے اور فرماتے: ’’لَا أَقْعُدُ إِلَّا بَیْنَ یَدَیْکَ،أُمِرْنَا أَنْ نَتَوَاضَعَ لِمَنْ نَتَعَلَّمَ مِنْہُ‘‘[1] ’’میں اس طرح ہی دو زانو ہو کر آپ کے سامنے بیٹھوں گا،کیوں کہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ جن سے ہم نے علم حاصل کیا،ان سے انکساری سے پیش آئیں۔‘‘ لہٰذا دین کے طالبِ علم کو اپنے محسن اور مربی اساتذہ کرام کے مشہد و مغیب میں ان کا اکرام و احترام کرنا چاہیے۔ قارئین کرام!زیرِ نظر رسالہ بلبلِ ہند خطیب الاسلام اور ہمارے اکابرین میں سے ممتاز علمی شخصیت حضرت مولانا عبدالرؤف رحمانی جھنڈا نگری رحمہ اللہ کے مضامین کا مجموعہ ہے،جسے ہمارے فاضل دوست حافظ شاہد محمود(فاضل مدینہ یونیورسٹی)
[1] تربیۃ الأولاد في الإسلام للشیخ عبد اﷲ ناصح العلوان(ص:۴۰۱)