کتاب: دینی تعلیم و تربیت کے اصول و آداب - صفحہ 31
علامہ ابن جماعہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’حُسْنُ النِّیۃِ فِيْ طَلب الْعِلم بأن یقصدَ بہ وَجہ اللّٰہِ تعالیٰ وَالْعملَ بِہ،وَتَنویر قَلبِہ وَتَحلیۃَ باطِنِہ وَالْقُرْبَ مِنَ اللّٰہِ تَعَالیٰ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَالتَّعْرضَ لِمَا أَعَدَّ لِأَھْلِہِ مِنْ رِضْوَانِہِ وَعَظِیْم فَضْلِہ‘‘ ’’طلبِ علم میں حسنِ نیت سے مقصود یہ ہے کہ علم محض اﷲ کی رضا کے لیے اور علم کے مطابق عمل کرنے کی غرض سے اور دل کی صفائی،اپنے باطن کی اصلاح اور قربِ الٰہی کے حصول اور اہلِ علم کے اﷲ تعالیٰ نے آخرت میں اپنی رضوان اور فضل و کرم جیسے جو عظیم الشان انعامات تیار کیے ہیں،ان کو پانے کی غرض سے علم حاصل کیا جائے۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((مَنْ طَلب الْعِلْم لیبَاھِي بِہِ الْعُلمَاء ویُمَاري بِہِ السُّفَھَاء أَوْ لِیَصْرفَ وُجُوْہَ النَّاس إِلَیْہ فَھُوَ فِيْ النَّار)) [1] جس نے اہلِ علم کے سامنے فخر و مباہات یا کم علم لوگوں پر برتری حاصل کرنے اور ان کو نیچا دکھانے کی غرض سے یا لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے ارادے سے علمِ دین حاصل کیا،وہ جہنم میں جائے گا۔‘‘ اﷲ تعالیٰ ہمیں اس رلا دینے والی بدبختی سے محفوظ رکھے! معمر بن راشد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
[1] سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث(۲۵۳) وصححہ الألباني في صحیح الجامع(۶۱۵۸)