کتاب: دینی تعلیم و تربیت کے اصول و آداب - صفحہ 27
کو خوب دیکھ بھال لینا چاہیے کہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے۔‘‘
اسی لیے امام شافعی فرماتے ہیں:
إذَا لَمْ أَجِدْ خِلًّا تَقِیًّا فَوِحْدَتِيْ
اَلَذُّ وَأَشْھَی مِنْ غَوِيٍّ أُعَاشِرُہُ
وَأَجْلِسُ وَحْدِيْ لِلْعِبَادَۃِ آمِناً
أَقَرُّ لِعَیْنِيْ مِنْ جَلِیْسٍ أُحَاذِرُہُ
’’جب مجھے کوئی متقی اور پرہیزگار دوست میسر نہیں آتا تو مجھے برے ہم نشین کی صحبت میں رہنے سے تنہائی زیادہ اچھی لگتی اور دل کو بھاتی ہے۔میں اکیلے بیٹھ کر اطمینان کے ساتھ عبادت کروں،یہ میرے لیے برے ہم نشین کی صحبت سے زیادہ سکون کا باعث ہے۔‘‘
دینی تعلیم کی ضرورت اور اہمیت
بحیثیتِ مسلمان ہمیں یہ احساس دامن گیر رہنا چاہیے کہ ہم ایک دستورِ حیات اور نظامِ زندگی کے مطابق اپنے دینی و دنیوی امور سرانجام دینے کے پابند ہیں،اس لیے ہر مسلمان کے لیے عبادات و معاملات کے بارے میں کتاب و سنت سے راہنمائی حاصل کرنا ضروری ہے،لہٰذا اوائل عمری ہی میں اولاد کو دینی تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔قرآن کریم کی تعلیم اور روزہ مرہ امور سے متعلق احکامِ شریعت کا جاننا اور اسلامی آداب کا سیکھنا ہر مسلمان مرد و زن کے لیے ضروری ہے،کیوں کہ علم و آگہی کے بغیر کوئی کام سرانجام دینا ناممکن اور محال ہے،مثلاً قرآن کریم کی تلاوت کا ہمیں حکم دیا