کتاب: دینی تعلیم و تربیت کے اصول و آداب - صفحہ 26
’’إِخْوَانُ السُّوْئِ یَنْصَرِفُوْنَ عِنْدَ النِّکْبَۃِ وَیُقْبِلُوْنَ عِنْدَ النِّعْمَۃِ‘‘ ’’برے ساتھی مصائب کے وقت ساتھ چھوڑ دیتے اور(خوش حالی میں ) مفادات کی طرف لپکتے ہیں۔‘‘ تمام بہن بھائیوں کو میری نصیحت ہے کہ خود بھی اچھے اور نیک لوگوں کی صحبت اختیار کریں اور اپنی اولاد کو بھی اس کی عادت ڈالیں،کیوں کہ نیک اور صالح لوگوں کی ہم نشینی اور ان سے تعلقات میں خیر و بھلائی ہے،نیز صحبتِ بد سے اجتناب کریں اور اپنی اولاد کو بھی اس سے دور رکھیں،کیوں کہ صحبتوں سے نقصان اور فساد کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔بقول حالی مرحوم ع شریفوں کے بچے بری صحبتوں میں جہاں تک ہو اِمکان ہر گز نہ بیٹھیں اس مقصد کے حصول کی خاطر اپنے بچوں کو حلقاتِ تحفیظ القرآن اور دینی اداروں اور اہلِ علم کی مجالس میں داخل کرائیں،کیوں کہ وہاں پر انھیں اچھے لوگوں کی صحبت میسر آ سکے گی اور ایسے مفید پروگراموں میں ان کا وقت صرف ہو گا جو ان کی دنیا اور آخرت کے لیے نفع مند ہیں اور اس کے ساتھ ہی بری مجالس سے دور رہنے کا ماحول بھی بن جائے گا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَلْمَرْئُ عَلیٰ دِیْنِ خَلِیْلِہٖ،فَلْیَنْظُرْ أَحَدُکُمْ مَنْ یُّخَالِلْ)) [1] ’’آدمی اپنے دوست کے دین یا طریقے پر ہوتا ہے،اس لیے ہر شخص
[1] سنن الترمذي،رقم الحدیث(۲۳۸۷) وحسنہ الألباني في السلسلۃ الصحیحۃ(۹۲۷)