کتاب: دینی تعلیم و تربیت کے اصول و آداب - صفحہ 25
’’کسی شخص کے بارے میں معلوم کرنا ہو تو خود اس کے بارے میں کسی سے مت پوچھیے،بلکہ اس کے دوستوں کے بارے میں معلوم کیجیے،کیوں کہ دوست ایک دوسرے کی سیرت کا عکس اور پرتو ہوتے ہیں۔‘‘
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((مَثَلُ الْجَلِیْسِ الصَّالِحِ وَالْجَلِیْسِ السُّوْئِ کَمَثَلِ حَامِلِ الْمِسْکِ وَنَافِخِ الْکِیْرِ،فَأَمَّا حَامِلُ الْمِسْکِ أَنْ یَّحْذِیَکَ،أَوْ تَشْتَرِيْ مِنْہُ،أَوْ تَجِدَ مِنْہُ رِیْحاً طَیِّبَۃً،وَنَافِخُ الْکِیْرِ فَإِمَّا أَنْ یَّحْرِقَ ثِیَابَکَ،أَوْ تَجِدَ مِنْہُ رِیْحاً مُنْتَنِۃً)) [1]
’’اچھے ساتھی اور برے ساتھی کی مثال عطر فروش اور بھٹّی دُھننے والے کی طرح ہے،عطر فروش یا تو خود ہی تمھیں عطر لگا دے گا یا تم اس سے خرید لو گے،اگر یہ بھی نہ ہو تو اس کے پاس سے تمھیں عطر کی خوش بو ضرور آئے گی،جب کہ بھٹّی جھونکنے والا یا تو تمھارے کپڑے جلا دے گا یا اس کی(دھواں دار) بدبو تمھیں ضرور محسوس ہو گی۔‘‘
یعنی نیک لوگوں کی ہم نشینی اور دوستی ہر لحاظ سے فائدہ مند اور مفید،جبکہ برے لوگوں کی صحبت ہر اعتبار سے باعثِ زیاں و نقصان اور عارضی اور ناپائیدار ہوتی ہے،کیوں کہ یہ دنیاوی مفادات اور ذاتی مصلحتوں پر مبنی ہوتی ہے،اسی لیے یہ معمولی اختلافات یا ذاتی مفادات حاصل نہ ہونے کی صورت میں فوراً ٹوٹ جاتی ہے،بلکہ دشمنی میں تبدیل ہو جاتی ہے،جیسا کہ عبداﷲ بن المعتز کا قول ہے:
[1] صحیح البخاري،رقم الحدیث(۵۵۳۴) صحیح مسلم،رقم الحدیث(۲۶۲۸)