کتاب: دینی تعلیم و تربیت کے اصول و آداب - صفحہ 24
نصیحت کے مطابق ہی کھایا کرتا ہوں۔ قارئینِ کرام!نبیِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے اندازِ تعلیم و تربیت میں ہمارے لیے یہ راہنما اصول موجود ہیں کہ نسلِ نو کی تعلیم و تربیت عقیدے اور عمل کی اصلاح کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرنا چاہیے اور یہ خیال کر کے کہ ابھی یہ بچے ہیں،جب بڑے ہوں گے تو خود بخود سیکھ لیں گے،ان کی تربیت کے اس اہم موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہیے،کیوں کہ إِنَّ الْغُصُوْنَ إِذَا قَوَّمْتَھَا اعْتَدَلَتْ وَلَا یَلِیْنُ إِذَا قَوَّمْتَہُ الْخَشَبُ ’’اگر آپ شاخ نازک کو سیدھا کرنا چاہیں گے تو وہ بآسانی سے سیدھی ہو جائے گی،لیکن جب وہ پختہ لکڑی بن جائے گی تو اسے سیدھا کرنا بہت مشکل ہو گا۔‘‘ صحبتِ بد سے پرہیز: اپنی اولاد اور نونہالانِ قوم کو برے لوگوں کی صحبت اور ہم نشینی سے محفوظ رکھنا اور یارانِ بد کی دوستی سے دور رکھنا تربیت کا بنیادی اور اہم پہلو ہے،کیوں کہ فطرتی طور پر انسان صحبت کا اثر بہت جلد قبول کرتا ہے۔کسی نے سچ کہا ہے: صحبتِ صالح ترا صالح کند صحبتِ طالح ترا طالح کند نیز ایک عربی شاعر نے کہا ہے: عَنِ الْمَرْئِ لَا تَسْأَلْ وَسَلْ عَنْ قَرِیْنِہِ فَکُلِّ قَرِیْنٍ بِالْمُقَارِنِ یَقْتَدِيْ