کتاب: دینی تعلیم و تربیت کے اصول و آداب - صفحہ 16
مرنے کے بعد جب تک اس کے اہلِ خانہ ان کے ذریعے فحاشی پر مبنی پروگرام اور حیا سوز اور اخلاق باختہ فلمیں اور ڈرامے دیکھتے رہیں گے،تب تک اسے برابر کا گناہ ملتا رہے گا اور اس کا وبال اس پر ہو گا۔‘‘[1]
نقشِ اول:
ہر شخص کو بدوِ شعور ہی سے نسلِ نو کی دینی اور اخلاقی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرنا چاہیے،کیوں کہ طفل خورد سال کا قلب و دماغ کورے کاغذ کی طرح صاف اور آئینے کی مانند شفاف ہوتا ہے۔ایامِ طفولت میں اس پر ثبت ہونے والا ہونے والا وہ نقش اَن مِٹ اور پائیدار اور اس کے مستقبل کے لیے خشتِ اول اور حجرِ اساس ہو گا،اور یہ سچ ہے ع
خشت اول چو نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((مَا مِنْ مَوْلُوْدٍ إِلَّا یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ،فَأَبَوَاہُ یُھَوِّدَانِہِ وَیُنَصِّرَانِہِ وَیُمَجِّسْانِہِ)) [2]
’’ہر بچہ فطرت(اسلام) پر پیدا ہوتا ہے،اس کے بعد اس کے ماں باپ چاہیں تو اسے یہودی بنا دیں،یا اسے نصرانی بنا دیں یا اسے مجوسی(آتش پرست) بنا دیں۔‘‘
[1] خطبہ شیخ صالح العثیمین رحمہ اللہ بتاریخ(25؍3؍1417)
[2] صحیح البخاري،رقم الحدیث(۱۳۵۹) صحیح مسلم،رقم الحدیث(۲۶۵۸)