کتاب: دینی تعلیم و تربیت کے اصول و آداب - صفحہ 14
سے نجات پا سکیں۔‘‘ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَّسْؤلٌ عَنْ رَعِیَّتِہِ،فَالْإِمَامُ رَاعٍ،وَھُوَ مَسْؤلٌ عَنْ رَعِیَّتِہِ،وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِيْ أَھْلِہِ،وَھُوَ مَسْؤلٌ عَنْ رَعِیَّتِہِ،وَالْمَرْأَۃُ رَاعِیَۃٌ فِيْ بَیْتِ زَوْجِھَا،وَھِيَ مَسْؤلَۃٌ عَنْ رَعِیَّتِھَا۔۔۔فَکُلُّکُمْ مَسْؤلٌ عَنْ رَعِیَّتِہِ))[1] ’’تم میں سے ہر شخص ذمے دار ہے اور ہر شخص سے اس کی ذمے داری کے متعلق پوچھ گچھ ہو گی،لہٰذا وقت کا حکمران ذمے دار ہے اور اس سے اس کی ذمے داری کے بارے میں سوال کیا جائے گا اور ہر آدمی اپنے گھر والوں کا ذمے دار ہے اور اس سے بھی اس کی ذمے داری کے متعلق باز پرس کی جائے گی۔ہر عورت اپنے خاوند کے گھر میں ذمے دار ہے اور اس سے بھی اس کی ذمے داری کے بارے میں پوچھا جائے گا۔۔۔الغرض تم میں سے ہر شخص ذمے دار ہے اور ہر شخص اپنی ذمے داری کے متعلق جواب دہ ہو گا۔‘‘ اس حدیثِ مبارک میں ہر شخص کو اس کے گھر والوں کا،جن میں اس کی بیوی بچے شامل ہیں،ذمے دار،نگران اور محافظ بتلایا گیا ہے اور متنبہ کیا گیا ہے کہ ہر شخص سے اس کے ماتحت لوگوں سے متعلق سوال کیا جائے گا کہ اس نے کہاں تک ان کی اسلامی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا تھا!
[1] صحیح البخاري،رقم الحدیث(۸۹۳) صحیح مسلم،رقم الحدیث(۱۸۲۹)