کتاب: دینی تعلیم و تربیت کے اصول و آداب - صفحہ 117
سیف بنارسی رحمہ اللہ کے ارتحال سے پیدا ہوا ہے اور مجھے امید ہے کہ تقریروں کی حد تک تم مولانا ثناء اﷲ امر تسری صاحب رحمہ اللہ کا نام زندہ کرو گے۔‘‘ یہ سب کچھ اپنے اساتذہ کی بے لوث خدمت کرنے اور ان کی مار پیٹ سہنے سے اور ان کی بہترین اصلاح و تربیت کے نتائج ہمیں حاصل ہوئے۔میں تو اپنی علم میں کم مائیگی اور تہی دامانی پر دوسروں کے مقابلے میں کسی شاعر کا یہ شعر پڑھتا ہوں جو نظامی کے مقابلے میں اس نے لکھا ہے ع نہ نظم ز نظمِ نظامی کم است و لیکن منم نم نظامی یم ست یعنی کسی شاعر کو اس کے اچھے شعروں پر کہا گیا کہ تم وقت کے نظامی ہو،تمھارے اشعار میں وہی خوبیاں ہیں،جو نظامی کے اشعار میں پائی جاتی ہیں۔شاعر نے اپنی مسکینی اور تواضع کے تحت اس کا جواب دیا کہ اگرچہ میری نظم نظامی کی نظم سے کم درجے کی نہیں ہے،لیکن میرے اور نظامی کے درمیان یہ فرق اب تک ہے کہ نظامی مثل سمندر کے ہیں اور میں سمندر کے مقابلے میں صرف شبنم کی طرح ہوں۔ اسی طرح وہ امامِ زمانہ،مناظرِ اسلام،فاتحِ قادیان،شیرِ پنجاب کا علوِ مرتبت اور مولانا سیف بنارسی کا علمی مقام اور زورِ خطابت جو آج تک ضرب المثل ہے،اس کے مقابل میں ہم جیسے کم سواد اور بے بضاعت لوگ کہاں لائے جا سکتے ہیں،لیکن ہمارے اساتذہ کرام کی یہ دعائیں اور تمنائیں میرے ساتھ شریک رہیں،جو میری علمی تگ و تاز اور علمی نشاطات میں میرا حوصلہ بڑھاتی رہیں۔