کتاب: دینی تعلیم و تربیت کے اصول و آداب - صفحہ 116
کے فلسفے پر سالانہ انجمن کے موقع پر ہم کو اور ہمارے کچھ رفقا کو خطاب کرنے کے لیے کہا گیا۔صدرِ انجمن مولانا محمد جونا گڑھی مرحوم رحمہ اللہ کے حکم کے مطابق مجھے صرف پانچ ہی منٹ کا موقع ملا۔دار الحدیث رحمانیہ کا ہال سامعین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔جب میں نے تقریر کرنا شروع کی تو پانچ منٹ کی تقریر میں تین مرتبہ لوگوں نے نعرۂ تکبیر بلند کیا اور تقریر کے خاتمے پر میں نے جب یہ دو شعر پڑھے ع ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے کوئی دیں،دینِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سا نہ پایا ہم نے ہم ہوئے خیر امم تجھ ہی سے اے خیر رسل تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے تو پورا مجمع مسحور ہو گیا۔مولانا احمد اﷲ صاحب بھی بہت متاثر ہوئے اور رو پڑے۔جب میں اسٹیج سے نیچے اترا تو مولانا نے مجھ سے فرمایا:بیٹے تم نے ہم کو رلا دیا۔وہاں سے تعلیمی فراغت کے بعد جب میں گھر پہنچا تو مولانا مرحوم نے میرے لیے یہ دعا لکھی تھی:’’خدا تجھ کو مثلِ ثناء اﷲ بنائے!‘‘ اسی طرح میری تقریروں کو سن کر حضرت الاستاذ علامہ عبیداﷲ صاحب رحمانی مبارک پوری شیخ الحدیث مدظلہ العالی نے مجھے خطیب الہند اور خطیب الاسلام کے لقب سے نوازا۔ اپنے ایک مفصل گرامی نامہ میں یہ رقم فرمایا: ’’تمهاری تقریروں کے ذریعے وہ خلا پر ہو رہا ہے جو مولانا ابو القاسم