کتاب: دینی تعلیم و تربیت کے اصول و آداب - صفحہ 112
ذہن میں پیدا ہوا تھا۔وہ زمانہ شیخ الاسلام مولانا امرتسری رحمہ اللہ کا تھا،اسی زمانے میں ’’رنگیلا رسول‘‘ وغیرہ زہریلی کتاب کے مضامین و مباحث میرے دماغ میں تھے۔مولانا کی ایمانی غیرت جوش میں آگئی اور مولانا نے مجھے بے ساختہ تھپڑ لگاتے ہوئے کہا کہ تو مرتد ہو گیا ہے۔تیرے باپ کو میں خط لکھوں گا کہ عبدالرؤف مرتد ہو گیا ہے،اسے اپنی وراثت سے حصہ نہ دینا،حالانکہ ہمارے وہ مشفق استاد تھے جو روزانہ نان خطائی ہمراہ لاتے،جسے خود کھاتے اور ہمیں بھی کھلاتے۔جو کچھ مجھے حاصل ہوا،انہی اساتذہ کی تعلیم و تربیت اور محنت و مشقت کے طفیل ہوا۔مولانا کے تھپڑ سے میں خوش ہوں کہ مجھے تعلیم کی دولت حاصل ہوئی اور ان کی تنبیہات نے میری خفتہ صلاحیت کو بیدار کیا اور اس کو جلا دینے میں اکسیر کا کام کیا،جسے میں تاحیات فراموش نہیں کر سکتا ہوں۔ شیخ مصلح الدین سعدی رحمہ اللہ نے بھی لکھا ہے کہ میرا بھی لوگ ذکر و چرچا کرتے ہیں،لیکن بچپن میں اپنے استادوں سے مار کھانے کی یہ برکت ہے،چنانچہ لکھتے ہیں ع تو دانی کہ سعدی مکاں ازچہ یافت نہ ہاموں نوشت و نہ دریا شگافت بخوردی بخوارد از بزرگاں قفا خدا دادش اندر بزرگی صفا ’’کیا تو جانتا ہے کہ سعدی کو یہ مقام و مرتبہ کہاں سے ملا؟ نہ اس نے صحرا نوردی کی اور نہ دریا میں شگاف ڈالا،بس اس نے چھوٹی عمر