کتاب: دینی تعلیم و تربیت کے اصول و آداب - صفحہ 111
کہتے تھے کہ اسے کھایا کرو،یہ جاروبِ معدہ ہے۔ اسی طرح مولانا احمد اﷲ صاحب پرتاپ گڑھی مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی میں شیخ الحدیث کے عہدے پر فائز تھے اور بڑے پر وقار اور جاہ و جلال والے تھے۔علمِ حدیث کے درس میں ضمناً بڑے بڑے ائمہ احناف کے اقوال و قیاسات کی تردید فرماتے۔کبھی صاحبِ ہدایہ کی اور کبھی علامہ ابن الہمام کے قیاسات کی دھجیاں بکھیرتے۔مولانا کی یہ پوری تقریر میں درسی افادات میں قلم بند کر چکا ہوں۔ یہ مولانا ہمارے والدِ محترم الحاج نعمت اﷲ خان مرحوم سے جھنڈے نگر کسی موقع پر آکر ملاقات فرما چکے تھے۔والد صاحب نے مجھے انہی کے سپرد فرما دیا تھا۔مولانا کا خطاب بھی جھنڈے نگر میں ہوا تھا،جس کو آپ نے بڑے ہی عالمانہ انداز میں پیش کیا تھا۔آپ کی تقریر میں جب اﷲ کا نام آتا آپ اﷲ پاک فرمایا کرتے تھے۔بہر حال مولانا نے تدریس کے زمانے میں صحیح بخاری پڑھتے ہوئے مجھے ایک زبردست طمانچہ رسید کیا تھا،جو مجھے اب تک یاد ہے۔ بات دراصل یہ تھی کہ میں نے یہ سوال کیا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خود دس بیویوں سے نکاح کی اجازت ملی اور دوسرے مسلمانوں کو چاہے ان میں سے کوئی قوی سے قوی تر ہو،چار بیویوں سے زیادہ کی اجازت نہیں،ایسا کیوں ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا خود ہی قرآن بنایا اور جو چاہا طے کر لیا اور مسلمانوں کو چار سے زیادہ اجازت نہ دی؟ دراصل یہ اعتراض آریہ حضرات کی تنقید و تشکیک کے نتیجے میں میرے