کتاب: دینی تعلیم و تربیت کے اصول و آداب - صفحہ 101
ایں کہ می گویند آں بہتر زحسن یارِ ما ایں دارد و آں نیز ہم یعنی کسی محبوب کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کے اندر حسن و جمال سے بہتر اس کے نازو ادا ہیں اس کے نازو انداز میں وہ دلبری اور دلنوازی ہوتی ہے جو اس کے حسن وجمال سے بھی بڑھ جاتی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ میرا محبوب حسن و جمال بھی رکھتا ہے اور دلفریب ناز و ادا کا سحر و جادو بھی۔اسی طرح ہمارے فاضل گرامی مولانا رحمانی صاحب کا بھی یہی حال ہے کہ وہ اپنے حسن علم و فضل کے ساتھ ساتھ بہترین،پرکشش اور حیرت انگیز زاویے و اندازے اور جذبات بھی رکھتے ہیں،جنھیں وہ آیندہ عملی جامہ پہنائیں گے۔إن شاء اﷲ لیکن آپ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والے ہیں،آپ کی طالب علمی کا زمانہ عسرت اور غربت کا زمانہ تھا۔مدرسہ سراج العلوم بونڈیہار اور فیضِ عام مؤ میں جب آپ زیرِ تعلیم تھے تو اپنے قریبی دوستوں سے مل کر رہتے تھے اور انہی کے ناشتے میں شریک رہا کرتے تھے۔کوئی خوش حالی و فراخی نہیں تھی۔اسی طرح جب جامعہ رحمانیہ بنارس میں پڑھنے آئے تو وہاں بھی یہی حال تھا۔گھر کے اخراجات کے لیے چند روپے کسی طرح انتظام کر کے ان کے بھائی دیتے،مولانا اسی پر تنگی و عسرت کے ساتھ قانع رہتے،لیکن حصولِ علم میں کوئی فرق آنے نہیں دیتے تھے۔بڑی پریشانی اور تنگی و غربت سے آپ نے اپنی طالب علمی کی زندگی کو کاٹا ہے،مگر اپنی سعی پیہم کی بدولت فقر و فاقہ کے