کتاب: دین کے تین اہم اصول مع مختصر مسائل نماز - صفحہ 54
’’قرآنِ کریم ‘‘ بھی لیاگیا ہے اور یہ سبھی معانی حق و درست ہیں۔ الْمُسْتَقِیْمُ : جس میں کوئی کجی اور ٹیٹرھا پن نہ ہو ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ :اُن لوگوں کا راستہ جن پر انعام کیا گیا ۔ ماضی میں انعام یافتہ لوگوں کے وجود کی دلیل یہ ارشاد ِ خالق ِ کائنات ہے : {مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَآئِ وَالصّٰلِحِیْنَ وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا} (النساء:۶۹) ’’جو لوگ اللہ اور رسول کی اطا عت کریں گے ،وہ اُن لوگوں کے ساتھ ہونگے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیاء اور صدّیقین اور شہداء اور صالحین کے ساتھ اورکیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں ‘‘۔ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ :(ان لوگوں کا راستہ نہیں جن پر تیرا غضب نازل ہوا ) ان سے مراد یہودی ہیں، جن کے پاس علم تو تھا مگر انہوں نے اُس پر عمل نہ کیا ۔ اللہ تعالی سے دعا ء کریں کہ اُن کے راستے سے محفوظ رکھے ۔ وَلَا الضَّآلِّیْنَ :(اور نہ گمراہوں کا راستہ ) ان سے مراد عیسائی ہیں، جو جہالت و گمراہی کی حالت میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ء کریں کہ اُن کے راستے سے بھی محفوظ رکھے ۔ سابقہ زمانہ میں گمراہی کے وجود کی دلیل یہ فرمان ِ باری تعالیٰ ہے : {قُلْ ھَلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالاًo اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاوَھُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًاo } (الکھف : ۱۰۳۔۱۰۴) ’’اے نبی !ان سے کہو :کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے